بلوچستان کا معاشی نظام زیر بحث نہیں آتا۔۔۔ (1)

| وقتِ اشاعت :  


پوری دنیا میں اس وقت جو جنگ چل رہی ہے وہ ہے معا ش کا۔ ایک ملک دوسرے ملک پہ چڑھائی کر رہا ہے غرض صرف وہاں کی معیشت پر قابض ہو کر راج کرنا۔معیشت کی اس جنگ میں کئی ممالک بازی جیت جاتے ہیں تو بہت سوں کو مات کھانی پڑتی ہے۔ پھر یہ ایسی گھن چکر ہے کہ اس سے نکلنا مشکل ہوجاتا ہے۔معیشت کے اس کھیل میں سرمایہ دارانہ نظام فروغ پاتا ہے۔ اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم عمل میں آتی ہے۔



ادھورا خواب۔۔۔۔۔۔۔۔پوری زندگی

| وقتِ اشاعت :  


اپنے ہم عمروں کی طرح وسیم نے بھی اپنی زندگی میں بہت سے خواب دیکھ رکھے تھے۔کچھ کر دکھانے کی جستجو اسے کسی لمحہ بھی چین نہ لینے دیتی تھی۔ وہ ہر وقت کچھ کچھ نہ کچھ سوچتا ہی رہتا تھا۔لیکن اس کے یہ سارے خواب اس کی ذات تک ہی محدود تھے۔ کسی کو کانوں کان بھی اس کی خبر نہ تھی۔ خبر ہوتی بھی تو کیسے؟ اگر وہ کسی سے یہ خواب بیان کرتا تو ہی نہ۔ لیکن اس نے کسی کو بھی اس کے بارے میں نہ بتا نے کی ٹھا ن رکھی تھی۔ اس کی سوچ بھی درست تھی کہ بجائے اس کے کہ وہ دوسروں سے اپنے خواب بیان کرے وہ چاہتا تھا کہ ان خوابو ں کی تعبیر حاصل کرنے کے بعد ان کو دوسروں کو بتائے۔ وہ دن رات محنت سے پڑھتا تھا تا کہ جلد جلد از جلد اپنی منزل پر پہنچ جائے۔



نصف صدی کی جدوجہد رائیگاں جائے گی؟

| وقتِ اشاعت :  


ڈالر کی اڑان کی ”برکتیں“ عوام، سیاستدان اور حکمرانوں کے درمیان سب سے زائد موضوع بحث بنا ہوا ہے، شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈالر کو اتنی شہرت ملی۔ آئے روز ایسی اڑان بھرتا ہے سب کو حیران کر دیتا ہے۔ اس پر تبصرہ بھر پور ہونا چاہئے، ضرور حصہ ڈالیں گے، لیکن بہاول پور میں ان دنوں سب سے زیادہ موضوع بہاول پور اور جنوبی پنجاب صوبہ پر بحث ہو رہی ہے۔



آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے نئے پہلو

| وقتِ اشاعت :  


اس سے پہلے بھی ہم22 مرتبہ آئی ایم ایف کی راہ اختیار کر چکے ہیں اور ہر بار آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے ناقدین کی طرف سے ملکی معیشت کا نظام چلانے والوں کو برا بھلا کہا گیا۔اس بار آئی ایم ایف نے واضح کر دیا ہے کہ 6 بلین ڈالر کا اسٹاف لیول ایگریمنٹ” پیشگی اقدامات پر بروقت عمل درآمد اور بین الاقوامی شراکت داروں کے مالیاتی وعدوں کی تصدیق” کے ساتھ مشروط ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایف بی آر کو یہ بتانا ہے کہ وہ اگلے بجٹ میں کس طرح محاصل کو بڑھائے گا۔اسٹیٹ بینک کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر اب مارکیٹ کے آزادانہ بہاؤ کی بنیاد پر طے ہو رہی ہے اور قرض کی بنیادی شرح سود میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ اس سے ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر کے بلا روک ٹوک گرنے میں جلد بازی اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے پہلے ہی بہت زیادہ شرح سود میں اضافہ کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔



ہر کوئی آگ بھڑکانے کو تیار ہے

| وقتِ اشاعت :  


پچھلے سال بولان میڈیکل کالج میں ہم نے ایک سیمینارمنعقد کیا جس کا موضوع تھا”Historical releations of Baloch and Pashtoon”جس میں کالج کے پشتون طلباء نے بھی ہمارے دعوت کے بعد ہمارا ساتھ دیا، پروگرام کا مقصد یہی تھا کہ ہم نفرتوں کی پروان چڑھتی فضاء کو کم کردیں ہم بھی ایک ساتھ اْٹھ بیٹھ سکیں، تجزیے،مباحثے،فیصلے کرسکیں، اسی پروگرام میں ایک سپیکر نے یہ جملہ کہا ”آج وہ لوگ بھی ایک ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر چائے پی سکتے ہیں جن کی پرتعیش تقریروں کے وجہ سے سینکڑوں بلوچ و پشتون نے اپنا خون بہایا اور آج تک ایک ساتھ نہیں بیٹھتے“ یہ واقعی یاد رکھنے والا جملہ ہے، ہمیشہ سے عوام کو جو بھگتنا پڑتا ہے وہ ابدی ہوتا ہے البتہ حکمرانوں کے لیے وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتا اور اسی حکمرانی کے چکر میں بلوچ پشتون تضادات والے کارڈ کو کہیں نہ کہیں استعمال کیا جاتا ہے۔



جدید سندھ کی معیشت کے بارے میں نئے حقائق

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان کی علاقائی معیشتوں کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں اور اگر کچھ موجود ہیں بھی تو وہ ادھوری اور نا مکمل ہیں جن پر انحصار کرنا مشکل ہے۔حال ہی میں شائع ہونے والی کتابThe Economy of Modren Sindh: Opportunities Lost and Lessons for the Future اس ضمن میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ سندھ کی جدید معیشت کے بارے میں نئی معلومات کے ساتھ یہ کتاب تین مصنفین نے مشترکہ پر لکھی ہے جن میں ڈاکٹر عشرت حسین، سندھ یونیورسٹی کے ایک ماہر تعلیم اعجاز قریشی اور محقق ندیم حسین شامل ہیں۔ڈاکٹر عشرت حسین نے سندھ کی معیشت پر پہلی کتاب اُس وقت تحریر کی تھی جب وہ عالمی بینک کے ساتھ وابستہ ہونے سے قبل سندھ حکومت کے لیے کام کر رہے تھے۔



سوچ بدلنے کے لیے پیغام کو بدلنا ہوگا

| وقتِ اشاعت :  


صوبائی حکومت نے محکمہ تعلیم کی گریڈ 17کی 2120 اور گریڈ 5تا 9کی 9423خالی آسامیوں کا اعلان کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ بلوچستان حکومت نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی میں نیک نیتی سے کام لے رہی ہے۔ وزیراعلیٰ بشمول کابینہ کے دیگر اراکین یہ بات بارہا دہرا چکے ہیں کہ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے محکمہِ تعلیم میں بھرتیاں کی جا رہی ہیں۔ بہت اچھی بات ہے روزگار کی فراہمی کے حوالے سے حکومت کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ مگر یہاں ایک بات جو عموماً تمام اقدامات کو ہوا میں اڑانے کا کام کرتی ہے وہ یہی ہے کہ محکمہ تعلیم حصولِ علم کے بجائے روزگار کا ذریعہ کیوں؟



ناکامی کامیابی کی کنجی ہے

| وقتِ اشاعت :  


کہا جاتا ہے کہ جب ایڈیسن نے بلب بنانا چاہا تو 999 کوششیں ناکام گئیں اور 1000 ویں دفعہ بن گیا۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے 999 ناکام طریقوں کے بعد 1000ویں بار صحیح بلب بنایا اور وہ کامیاب طریقہ ایجاد کیا جس سے بلب بنایا جاسکتا ہے تو ایڈیسن نے کہا نہیں میں نے ناکام نہیں بلکے 999 وہ طریقے ایجاد کیے ہیں جن سے بلب نہیں بنایا جاسکتا اور 1000 ویں بار وہ طریقہ ایجاد کیا جس سے بلب بنایا جاسکتا ہے اور وہ طریقہ تبھی ملا جب میں 999 وہ طریقے ڈھونڈ چکا تھا جن سے بلب نہیں بنایا جا سکتا۔



آزادی صحافت کی صورت حال

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان میں آزادی صحافت کی صورت حال کا اندازہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ڈائریکٹوریٹ(آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل سے حامد میر کے اس سوال سے لگایا جا سکتا ہے کہ میڈیا کو پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کو انٹرویو کرنے اور ان کے خلاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے الزامات کا جواب حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے حامد میر کو یہ اجازت نہیں دی۔



ٹکری ایجوکیشن سینٹر ماڑی پور کو بچانے کا سوال

| وقتِ اشاعت :  


10ہزار نفوس پر مشتمل ٹکری ولیج ماڑی پور کراچی کا حصہ ہوتے ہوئے بھی زندگی کی تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ یہ بلوچ آبادی پر مشتمل علاقہ ہے۔ ذریعہ معاش کا انحصار ماہی گیری یا کمپنیوں کی ملازمت ہے۔ علاقے میں پانی کا بحران ہے۔صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔ تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں شرحِ ناخواندگی بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کراچی کا حصہ ہوتے ہوئے بھی یہ بلوچستان کا دیہی علاقہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں کے نوجوان تعلیمی اداروں تک عدم رسائی کے سبب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں اور مجبوراً اپنے آباؤاجداد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ماہی گیری کا شعبہ اختیار کرتے ہیں یا کمپنیوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔علاقے سے آج تک نہ کوئی ڈاکٹر پیدا ہوا، نہ کوئی وکیل یا استاد۔