سوال ہے جینے کا

| وقتِ اشاعت :  


سرداروں، وڈیروں، نوابوں، جاگیرداروں کا علاقہ بھاگ ناڑی۔۔ کبھی سبی تو کبھی کچھی کے پلو باندھ دیا جاتا ہے کبھی رندبادشاہی کرتے ہیں تو کبھی ڈومکی قابض آتا ہے ۔یہ سلسلہ برسوں سے چلتا چلا آرہا ہے۔ ہرکسی نے قسمت آزمائے، تخت و تاج ان کے حصے میں آئے، خوش حالی نے ان کا دامن گھیرا مگر بھاگ ناڑی کی قسمت میں تبدیلی نہیں آئی۔ تبدیلی فقط لفظو ں تک محدود رہی۔ 



ایک تھا علی جان

| وقتِ اشاعت :  


برادر اکمل شہزاد گھمن لکھاری ہیں براڈکاسٹر ہیں کتاب ’’میڈیا منڈی‘‘ کے مصنف ہیں۔ مہربان اور انسان دوست آدمی ہیں۔ جب اسلام آباد میں مقیم تھا تو کبھی ان کے ہاں محفلیں جمتی تھیں یا کبھی میرے پاس تو بلوچستان ضرور زیر موضوع آتا تھا۔ اب ان کا کوئٹہ آنا نہیں ہوتااور میں اسلام آباد جا نہیں پاتا تو فیس بک ہی واحد ذریعہ ہے جہاں اس کے پوسٹ دیکھ کر ان کی خیر خیریت کی خبر ہو جاتی ہے۔ 



لیجیے ایک اور بریکنگ نیوز

| وقتِ اشاعت :  


آج کل جس طرح کے حالات چل رہے ہیں ایسے میں تو یہی لگتا ہے کہ مسکرانا منع ہے جس طرف دیکھو بری خبریں ہی سنائی دیتی ہیں ایسے میں بندے کی گھبراہٹ ہی نہیں جاتی اس ذمر میں میڈیا خاص اہمیت کا حامل ہے جنہوں نے ہر وقت سنسنی پھیلا ئے رکھنے کا عہد کر لیا اور اب تو یہ ٹرینڈ بن گیا ہے۔ایک چھوٹی سی بات کو اس طرح سنسنی خیز بنا دیا جاتا ہے کہ کیا کہیے۔ نیوز چینلز کی بات ہی مت کیجئے آپ خود ہی دیکھئے کہ جب بھی ٹی وی آن کریں اور نیوز چینل پر کریں تو کسی نہ کسی حادثے یا سانحے کی خبر ہی ملتی ہے ،معجزہ ہی ہوجاتا جب کوئی اچھی خبر سننے کو ملے۔



بی جے پی کا پاکستان دشمن پروپیگنڈا

| وقتِ اشاعت :  


وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کے ساتھ کشیدگی حالیہ کشیدگی پر جس طرح قابو پایا ہے، سابق وزیر اعظم نواز شریف کوٹ لکھپت جیل کے اپنے کمرے میں اس پر ضرور حیرت کا اظہار کر تے ہوں گے ۔اس وجہ سے نہیں کہ وہ قومی سلامتی کی پالیسی میں اس یکسر تبدیلی کے خلاف ہیں بلکہ اس لیے کہ انھوں نے امن کے وہ اعزازات حاصل کرنا چاہے تھے جن کی اب عمران خان پر بارش ہو رہی ہے ۔



دشت کا مسافر مسیحا

| وقتِ اشاعت :  


؂قدیم عمارت کے سامنے چار موٹر سائیکلیں کھڑی ہیں۔ کرسی پر بیٹھا نوجوان ایک شخص کی آمد پر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اس سے سلام و دعا کرتا ہے پھر بیٹھ جاتا ہے۔ آنے والا فرد ایک کمرے کے اندر داخل ہوجاتا ہے ہم بھی یہی عمل دہرا کر اس کے پیچھے پیچھے اسی کمرے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کمرے کے اندر مریضوں کا مجمع لگا ہوا ہے طبیب ایک مریض کو درد کا انجکشن لگانے میں مصروف ہے۔



احتساب کا ڈھول

| وقتِ اشاعت :  


میرے سامنے اس وقت ایک تصویر آویزاں ہے۔آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگائے اور دبنگ اسٹائل میں کھڑا یہ شخص کسی فلم کا ہیرو لگ رہا ہے۔ تصویر کے اردگر نظر دوڑاتا ہوں تو آس پاس کھڑے باادب افراد کو دیکھ کر پھر ذہن میں ولن کاخیال آتا ہے ۔ تصویر کے نیچے کیپشن پڑھتا ہوں تو لکھا ہوا نظر آتا ہے’’ سابق مشیر خزانہ خالد لانگو سیکرٹریٹ میں خالق آباد اور قلات کے عوام کے مسائل سن رہے ہیں‘‘۔ کیپشن پڑھتے ہی خیالات گھیرنا شروع کرتے ہیں اور سوالات گرد ڈیرہ جمالیتے ہیں۔ 



زنانہ وارڈ سے مردانہ وارڈ کا سفر

| وقتِ اشاعت :  


’’صاحب! مجھے یہ ڈیوٹی دی گئی ہے کہ آپ کو زنانہ وارڈ سے نکال کر مردانہ وار ڈ میں منتقل کر دوں‘‘۔کیڈٹس کی ٹریننگ کے پہلے دن ان کے ٹریننگ انچارج نے کہا۔ یہ بات سن کر مجھے شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب تھوڑا سا موجودہ نظام تعلیم پر غور کیا تو پتہ چلا کہ آجکل کی سکول ایجوکیشن میں بچوں اور بچیوں کو پڑھانے کے لیے زیادہ تر خواتین اساتذہ کو رکھا جاتا ہے۔ان اساتذہ کی تعلیم وتربیت کے باعث بچوں میں فیصلہ کرنے کی قوت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔اگر دیکھا جائے تو بچیوں کے لیئے تو یہ چیز کافی حد تک قابل قبول ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت خواتین کی زیر نگرانی ہو جائے لیکن اگر لڑکوں کی تعلیم و تربیت بھی خواتین اساتذہ کی زیر نگرانی ہو تو ان کے اندر بہت سی کمزوریا ں رہ جاتی ہیں۔ 



امن پرستی اور وطن پرستی

| وقتِ اشاعت :  


پلوامہ اٹیک کے کئی دنوں تک بھارت جنگ کی دھمکیاں دیتا رہا مگر کسی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا یہاں تک کہ بدھ کے دن بھارت کے طیارے لائن آف کنٹرول کو کراس نہیں کر لیتے ہیں ،جس کے بعد تشویش بڑھ جاتی ہے اور پاکستان کے بہادر جوان ان کو نیست و نابود کر دیتے ہیں ۔ اب سب کہنا شروع کر دیتے ہیں ابھی جنگ ہوئی ابھی ہوئی اور ابھی ہوئی ، ہر جگہ انٹرنیٹ ہو ، ٹی وی سکرین ہو یا موبائل فون ہو ہر جگہ ماحول گرم ہے ہر کوئی جنگ جنگ کرنے لگا ہوا تھا ۔ ہم لوگ یونیورسٹی میں تھے جب خبریں گردش زدہ عام تھیں، دل گھبرا رہا تھا ، زبان سے بس یہی نکلتا تھا خدا خیر کرے۔۔۔ آزاد کشمیر کے ساتھی زیادہ پریشانی میں تھے ،ان کے تو علاقے بھی خالی کرا لیے گئے تھے۔



رنگ تماشا

| وقتِ اشاعت :  


ستمبر 1939کو وارسا کے مقامی ریڈیو اسٹیشن پر جب جرمن حملہ ہوتا ہے تو ریڈیو اسٹیشن میں بیٹھا نوجوان پیانو بجا رہا ہوتا ہے۔ تمام عملہ جا چکا ہوتا ہے مگر پیانو بجانے میں مگن نوجوان کو دھماکہ، دھماکہ نہیں لگتا انگلیاں کی بورڈ پہ اس وقت تک چلتی رہتی ہیں جب تک دھماکہ اسٹیشن کی شیشوں کو توڑتا ہوا اسے زخمی نہیں کرتا۔ پولینڈ کا رہائشی نوجوان ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ 



ٹریفک حادثات کا ذمہ دار کون؟

| وقتِ اشاعت :  


احمد کی عمر کم وبیش دس سال ہوگی جب اس نے والد سے چوری چھُپے موٹر سائیکل چلانا سیکھ لیا تھا۔ بائیک چلانے کا اس کو جنون تھا۔ جونہی موقع ملتا وہ گھر سے موٹر سائیکل لیتا اور یہ جا وہ جا۔پہلے پہل تو اس کی حد محلے کا پارک تھا۔ بس بات اگلے محلے تک جا پہنچی۔ چند دن بعد ہی اس نے بائیک مین روڈ پر چلانی شروع کر دی۔وہ بائیک اتنی تیز رفتاری سے چلاتا تھا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چند لمحوں میں پہنچ جاتا تھا۔ اور بڑے فخر سے یہ کارنامہ اپنے دوستوں کو بتا تا تھا۔