ہر گزرتے دن کے ساتھ پاک چاہنہ کوریڈور سے جڑے کچھ اچھی کچھ بری خبریں سننے کو ملتی ہیں لیکن ہم نے کبھی اس سے جڑے دیگر عوامل کو پرکھنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ ہمیں صرف سی پیک سے جڑے اچھی خبروں کی دھند میں محصور کردیا گیا تھا لیکن چوں چوں وقت گزرتاگیا لوگوں نے اس میں دلچسپی لینا شروع کی ۔
پاکستان کی طرف سے افغان طالبان رہنماؤں کو بالآخر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ کرنے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے امید کی کرن نظر آئی ہے۔امریکا کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان رہنماؤں کے درمیان مذاکرات18 دسمبر کو ابو ظہبی(متحدہ عرب امارات) میں ہوئے۔ پہلے یہ بات چیت دوحہ میں طے تھی مگر قطر اور خلیجی ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے مقام تبدیل کر کے ابو ظہبی کا چناؤ کیا گیا۔پاکستان متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو مذاکرات میں شامل کرنا چاہتا تھاکیونکہ طالبان کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیں اور یہ دونوں ملک افغان طالبان کی کچھ مالی مدد بھی کرتے ہیں۔یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے حقانی گروپ کو سامنے بٹھا کر اس سے بات چیت کی،حالانکہ اقوام متحدہ کی طرف سے انھیں دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔
ڈاکٹر خالد سہیل ایک محسن ہیں جب سے ان کی تحریروں سے واسطہ پڑا ہے۔ تب سے ہم اُ ن کے گرویدہ ہو گئے ہیں ۔ڈاکٹر خالد سہیل کے نام سے میں پہلے انجان تھا جب سے ’’ہم سب‘‘ نے اپنا دروازہ کھولا تو بہت سے لکھاری سامنے آئے، لکھاریوں کی فہرست میں ڈاکٹر خالد سہیل کا نام سب سے اوپر آیا۔ ڈاکٹرصاحب کی تحریروں نے مایوس افراد کی زندگی میں جان ڈال کر ان میں امید کی کرن پیدا کی۔ کینیڈا میں مقیم انسان دوست یہ شخص کینیڈا سے باہر مقیم نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کا علاج اپنی تحریروں کے ذریعے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب وہی کام کر رہے ہیں جو پاکستان میں مقیم معالج فیس لے کر بھی نہیں کر پاتا۔
’’سوال ہی جواب ہیں،جو سوال کرتا ہے، وہ جواب سے گریز نہیں کر سکتا۔‘‘ تم جانتے ہو ہمارے اندر موجود یقین کی قوت کس طرح ہمارے فیصلوں،اعمال،قسمت اور ہماری زندگیوں کی سمت پر اثرانداز ہوتے ہیں اور یہ سب اثرات سوچ کی پیداوار ہوتے ہیں۔سوچ سے مراد ہے ہمارے ذہن کا ساری زندگی کے دوران معانی کی قدر پیمائی کرنے اور معانی تخلیق کرنے کا انداز۔چنانچہ ہم روزانہ کس طرح اپنی حقیقت کو تخلیق کرتے ہیں اور اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح سوچتے ہیں؟
آپ سے کوئی سوا ل کرے کہ آپ نے کبھی بس کا سفر کیا ہے؟ تو آپ کا جواب ہاں میں ہی ہوگا لیکن پوچھا گیا سوال آپ کو انتہائی غیرضروری لگے گا۔ اگر یہی سوال زندگی سے متعلق کیا جائے تو آپ یادوں کے جھروکوں میں چلے جائیں زندگی کا آغاز آپ نے کب اور کیسے کیا تھا بے سروسامانی کے عالم میں کہاں کہاں سفر کرتے رہے کیا کھویا کیا پایا بس پھر آپ کا وقت یادوں کا خزانہ چھان مارنے میں گزر جائے۔
جب جامعہ گجرات کے ریڈر کلب کی طرف سے مطالعہ کی افادیت اور تحریر میں اسکی اہمیت پر مضمون لکھنے کا کہا جاتا ہے تو مجھے سہیل وڑائچ ، جاوید چوہدری یاد آ جاتے ہیں اور پھر ان کا زمین سے آسمان تک کا پورا سفر میری آنکھوں کے سامنے ایک منظر کی طرح پیش… Read more »
گزشتہ شب شال (کوئٹہ) سٹی سے معروف نیورو سرجن ابراہیم خلیل اغوا ہوئے۔ اغوا کار کون تھے مغوی کو کہاں لے گئے نہیں معلوم۔ اغوا کی اطلاع ملتے ہی انتظامیہ حرکت میں آگئی ۔رات گئے چیکنگ کے نام پہ جگہ جگہ ناکے لگائے گئے۔ٹی وی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے سبب اُس وقت پتہ نہیں چلا کہ اچانک ہوا کیا ہے۔ صبح جب دو کالمی خبر پہ نظر پڑی تو پورا منظر نامہ سمجھ میں آ ہی گیا کہ رات کو ہوا کیا تھا۔
صبح صبح جب اخبار کا صفحہ چھان مار رہا تھا کوئی خوشگوار خبر ملی ہی نہیں کہ دل کا بوجھ ہلکا ہوتا، سوائے چیف جسٹس کے ایک مزاحیہ بیان کے ’’ دو تین گولیاں رکھ کر ایمرجنسی وارڈ بنا دیتے ہیں دوائیں میسر نہیں تو ہسپتال بند کر دیں‘‘۔
حالیہ دنوں میں حلقہ 47 کیچ 2 کے الیکشن میں ہچکچائے بغیر سیاست سے شغف رکھنے والا ہر شخص بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کی پیشنگوئی کر رہا تھا۔۔۔۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ واقعی بلوچستان عوامی پارٹی اس حلقے میں توانا ہے یا اسکی گراس روٹ مضبوط ہے بلکہ وجہ یہ تھی کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ہی امیدوار نے جیتنا ہے تو سو جیتنا ہے۔
آج سے چند صدی قبل جب یورپ میں پریس (چھاپہ خانہ ) ایجاد ہوا تو اسلامی دنیا میں جیسے بھونچال سے آگیا تھا۔ فوراً ہی کفر کے فتوے جاری ہونے لگے اور اسلامی دنیا نے قریباً ڈیڑھ سو سال تک چھاپہ خانے کی ایجاد کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا۔