|

وقتِ اشاعت :   December 26 – 2018

ڈاکٹر خالد سہیل ایک محسن ہیں جب سے ان کی تحریروں سے واسطہ پڑا ہے۔ تب سے ہم اُ ن کے گرویدہ ہو گئے ہیں ۔ڈاکٹر خالد سہیل کے نام سے میں پہلے انجان تھا جب سے ’’ہم سب‘‘ نے اپنا دروازہ کھولا تو بہت سے لکھاری سامنے آئے، لکھاریوں کی فہرست میں ڈاکٹر خالد سہیل کا نام سب سے اوپر آیا۔ ڈاکٹرصاحب کی تحریروں نے مایوس افراد کی زندگی میں جان ڈال کر ان میں امید کی کرن پیدا کی۔ کینیڈا میں مقیم انسان دوست یہ شخص کینیڈا سے باہر مقیم نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کا علاج اپنی تحریروں کے ذریعے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب وہی کام کر رہے ہیں جو پاکستان میں مقیم معالج فیس لے کر بھی نہیں کر پاتا۔

ڈاکٹر صاحب خود ماہر نفسیات ہیں نفسیاتی مسائل پر جب سے ان کی تحریروں کے آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ اس کے ثمرات بھی عام آدمی کی زندگی پہ پڑنا شروع ہو گئے، قاری کو اپنی تحریروں کی طرف کس طرح مائل کرنا ہے یہ ڈاکٹر خالد سہیل سے بہتر کون جانتا ہے۔

ان کی ایک کتاب ’’ روحانیات کی نفسیات‘‘ زیرِ مطالعہ تھا کتاب میں نفسیات کی روح کے ساتھ وابستگی کے مختلف پہلوبیان کیے گئے ہیں کتاب پڑھ کر یوں محسوس ہوا کہ انسانی نبض پہ ہاتھ رکھ کر اس کے روح کو جانچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کا اختتامیہ ڈاکٹر صاحب کے خوبصورت انٹریو پر ہوا ہے۔کتاب سے ہم انجان تھے بھلا ہو ہماری پیاری بہن اور شاعرہ نوشین قمبرانی کا جو نہ جانے انسانی روح کا مطالعہ کیسے کرتی ہیں نے ہمیں کتاب سے متعارف کرا کر ہم پر احسان کر دیا ورنہ ہم اس نایاب تخلیق سے بے بہرہ تھے۔

ڈاکٹر خالد سہیل کا اندازِ تحریر دل کو چھو لینے والا ہوتا ہے موجودہ دور میں ایسے نایاب افراد کی دستیابی کسی نعمت سے کم نہیں جو افراد اور معاشرے کی فلاح کا سوچتے ہیں ان کا دکھ درد سمجھتے ہیں روحانی علاج میں جُٹ جاتے ہیں مسیحا نہیں تو کیا ہیں۔

گوہر تاج کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال میں آپ نے نفسیات کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کا جواب ڈاکٹر خالد سہیل نے یوں دیا ہے۔ ’’میری والدہ کا خواب تھا کہ میں ایک ڈاکٹر بنوں جب کہ میرا خواب تھا کہ میں ایک شاعر اور فلاسفر بنوں۔ جب میں ڈاکٹر بن گیا تو میں نے اپنے آپ کو ایک دوراہے پر پایا۔ آخر میں نے سوچا کہ اگر میں ایک ماہرنفسیات بن جاؤں تو میرے ڈاکٹر اور فلاسفر بننے کے خواب یکجا ہوجائیں‘‘۔ 

ایک اور چیز تھی جو اسے نفسیات کی طرف آنے کا سبب بن گیا وہ تھا ان کے والد عبدالباسط کا نفسیاتی بحران کا شکار ہونا۔۔جس نے اسے نفسیات کے شعبے کی جانب آنے میں تحریک دی۔ڈاکٹر خالد سہیل کی انسان دوستی دیکھ کر ان پر رشک آتا ہے۔ معاشرے پر اس کے احسانات بہت ہیں۔

بات ہو رہی تھی ڈاکٹر سہیل کی خدمات کے حوالے سے، تو ہمارا مدعا بلوچستان ہے بلوچستان کے مسائل مختلف ہیں یہاں کا آدمی کینیڈا کے مقیم سے مختلف سوچتا ہے یہاں کے لوگوں کا رویہ وہاں کے لوگوں کے رویے سے مختلف ہے۔ سویہاں کے نفسیاتی مسائل بھی جدا ہیں۔ یہاں کے نفسیاتی مسائل کو یہاں کا مقامی ہی بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے مسائل کا علاج بھی یہاں کا مقامی سائیکاٹرسٹ یا سائیکالوجسٹ ہی کر سکتا ہے۔ بلوچستان گزشتہ ایک دہائی سے کافی متاثر رہا ہے۔ 

جنگ زدہ خطے کے مکین نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ الجھنیں مختلف ہیں معاشی الجھنیں الگ ہیں سیاسی الجھنیں الگ تو سماجی الجھنیں الگ۔ جنگی کیفیت میں بدلتے رویے اور رویوں کے شکار لوگ۔۔ ان الجھنوں کو سلجھانے کے بجائے حکومتِ وقت اور معاشرہ انہیں یکسر مسترد کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ الجھنوں میں کمی کے بجائے دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

این ایف سی انجینرنگ یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ کیمیکل انجینرنگ کا طالب علم سیف اللہ جمالی اس لیے خود کشی کرتا ہے کہ اسے یونیورسٹی سے نکالا جاتا ہے۔ ایک طرف خاندان کا ڈر تودوسری جانب تعلیمی قید و بند۔ ڈر اور خوف نے شاید اسے نفسیاتی مریض بنا دیا تھا۔ سیف اللہ خودکشی کرتا ہے خودکشی کا یہ منظر سب نے دیکھ لیا لیکن خودکشی کے محرکات کا نہ کسی نے جائزہ لیااورنہ ہی اس موضوع کو زیر بحث بنایا۔ اور نہ ہی نفسیاتی پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا صرف انصاف کا مطالبہ کیا گیا۔ 

سیف اللہ تو چلا گیا اسے انصاف کی کیا ضرورت تھی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ آنے والے وقتوں میں ایسے واقعات کو کس طرح روکا جا سکتا ہے اس پہ سوچ بچار کیا جا سکتا تھاجو نہ ہو سکا۔

بلوچستان میں نہ ہی سائیکالوجیکل کونسلنگ کا نظام موجود ہے اور نہ ہی کیریر کونسلنگ کا ۔ ایک نوجوان جسے ریاضی سے کوفت محسوس ہوتی ہے اس کے والدین بضد ہوتے ہیں کہ بیٹا انجینیر بنے اس پر جتنا سرمایہ لگاتے ہیں اسی مقدار میں نتیجہ مانگتے ہیں بچے کی نفسیات نہ ہی معاشرہ سمجھ پاتا ہے اور نہ ہی خاندان ،ذرا سوچیں وہ بچہ کیارزلٹ دے گا معاشرہ اور خاندان کے توقعات پہ پورا کیسے اتر پائے گا۔ نتیجہ کیا ہوگا بچہ اکتاہٹ کا شکار ہوجائے گا۔

سوسائٹی جتنا growکر رہا ہے اسی حساب سے افرادی قوت کی نفسیاتی الجھنوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نفسیاتی مسائل سے متعلق ایک مضمون پڑھ رہا تھا۔ مضمون کے آخر میں ایک سوالنامہ موجود تھا پوچھے گئے سوالوں کے نیچے لکھا ہوا تھا اگر پانچ کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے تو سمجھ لیں کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہیں آپ کو ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے میں نے محسوس کیا کہ یہ تمام علامات مجھ میں موجود ہیں۔ 

لیکن پھرخیال آیا کہ بلوچستان کا دارالخلافہ کوئٹہ ایک ہی ماہرِ نفسیات سے امراض کا علاج ڈھونڈتا ہے۔ جو دن میں دو سو مریضوں کا معائنہ اور انہیں دوائیں تجویز کرتا ہے۔ذرا سوچیں اگر ایک ڈاکٹر دن میں دو سو مریضوں کا معائنہ کرے تو کیا اس معائنے سے نفسیاتی امراض کے علاج میں مدد ملے گی؟ تو جواب یقیناًنہ میں ہوگی۔ 

ایک سائیکاٹرسٹ مرض کا تشخیص کرکے چند دوائیوں سے علاج کرے تو کیا اس سے کونسلنگ ہو سکے گی۔ کسی بھی مریض کو دواؤں کے ساتھ ساتھ کونسلنگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جہاں سائیکالوجسٹ دستیاب نہ ہو تو کیا کیا جائے۔ صرف دعا ہی کیا جا سکتا ہے کہ خدا کرے کہ بلوچستان کو ڈاکٹر خالد سہیل جیسا مسیحا ہاتھ آئے۔