یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں رہا کہ عمران خان کو وزیراعظم بنائے جانا تھا اور انہیں بنا دیا گیا ’’ بے شک اللہ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے ‘‘ ذی شعوراور اہل ایمان بخوبی جانتے ہیں کہ ایٹمی تنصیبات کو سنبھالنے کے لئے نہ صرف ایک کثیر افرادی قوت کی ضرورت ہے بلکہ ایک مضبوط اور مستحکم مالیات بھی ناگزیر ہے جبکہ ان تمام ترجیحات کو ایک امن کے سہارے کی بھی ضرورت ہوتی ہے لہذاجب بیل ایک سینگ سے زمین کو تھام سکتا ہے تو ایک کالا باغ ڈیم ملکی مالیات کو کیوں نہیں؟
ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی انتخابات اور حکومت سازی کے مراحل طے ہوئے تو امتحان کا مرحلہ شروع ہوا۔ کرپشن ، بیروزگاری اور اقرباء پروری کے خاتمے کے ساتھ بلا امتیاز خدمت بھی انتخابی وعدوں کا حصہ رہی ۔اب جمہوریت کے ناتواں کندھوں پر قانون سازی سے لے کر انسانی ترقی تک کا بارِگراں آن پڑا ہے تو اس سے عہدہ براء ہونے کا قابلِ عمل منصوبہ بھی یقیناَ اربابِ اختیار کے پاس ہو گا۔
مکران کے ساحلی علاقے ’’دران‘‘ جیوانی، ’’تاک‘‘ اورماڑہ اور پاکستان کے سب سے بڑا جزیرہ ’’اسٹولہ‘‘ کو گرین ٹرٹل کے لئے محفوظ علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ ماہرین حیاتیات کی نظر میں یہ علاقے آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے سبز کچھوؤں کی افزائش نسل کے لئے محفوظ زون ہیں۔
جگر کی سوزش (Hepatitis ) کو بلوچی،براہوئی میں’’ زڑدوئی‘‘ پشتو میں’ ژڑا‘اور اردو میں یرقان کہتے ہیں۔یرقان کی بڑی وجہ وائرسز(Viruses ) ہیں لیکن کبھی کبھار الکوحل ، آٹو امیون بیماریاںیا کئی ادویات بھی جگر کو متاثر کرتی ہیں۔
بیشتر ترقی پذیر ملکوں میں خطرے کی گھنٹی اُس وقت بجائی جاتی ہے جب خطرہ سر پر آ چکا ہوتا ہے۔پہلے سے منصوبہ بندی شاذ و نادر ہی کی جاتی ہے۔اگر زمینی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بعض منصوبوں کی نشان دہی کر بھی لی جائے تو انھیں اُس وقت تک ترجیح نہیں دی جاتی، جب تک کہ خطرہ ہمارے سر پر منڈلانا نہ شروع ہو جائے۔پاکستان کوئی مختلف ملک نہیں ہے۔
یار لوگ ملکی مقتدرہ کے بارے میں کچھ بھی کہتے ہوں لیکن اس کی چالاکی کی داد دینی پڑتی ہے کہ زرداری جیسے شاطر کو بھی بوتل میں ایسے اتار دیاکہ وہ اس کو اپنامسکن سمجھ بیٹھے ۔نیا پاکستان بننے جارہا ہے لوگ اس بات پر یقین کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں جبکہ ملکی مقتدرہ نے آدھا نیا پاکستان بنا لیا۔
کوئٹہ کی وادی کا خیال آتے ہی ذہن میں انار،سیب،خوبانی کے باغات کا تصور آتا ہے،ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد سی سنساہٹ کا احساس ہوتا ہے،دیو ہیکل پہاڑوں کی گود میں سوئے اس شہر کو سات رنگوں میں گْندھے بلوچستان کا سب سے خوبصورت رنگ قرار دیا جا سکتا ہے۔
کافی عرصے سے کتابوں سے دوری اور غم دوراں نے کچھ ایسے باندھ رکھا تھا کہ کچھ لکھتے ہوئے بھی نہ لکھنے کی سوچ مسلسل قلم سے دورکرنا چاہ رہی تھی۔ اس سوچ کو مات دینے کیلئے بارہا کوشش کی مگر ہر بار ناکامی ہوئی ۔
ایک بلوچی کہاوت ہے کہ ” تانکہ راست پدّر ببیت ، دروگ جاگہہ سوچیت” ۔ “جب تک سچ خود کو آشکار کرے تب تک جھوٹ جگہے کو جلا دیتی ہے”. بلوچ کے سیاق و سباق میں یہ سرگرمیاں اتنے بڑے پیمانے پر جاری رہی ہیں کہ کئی مخلص سیاسی کارکن ان جھوٹ کا شکار ہوئے ہیں۔
یار لوگ مضطرب تھے کہ پاکستان میں جمہوری نظام کو چلنے نہیں دیاجاتا‘ہر دس سال بعد بوٹوں کی ٹاپ سنائی دے جاتی ہے اس خیال میں کمال اس وقت آجاتاہے کہ جب مقتدرہ کے باپ انگریز کے پالے پوسے جاگیر داری پلے یہ کہنے لگیں کہ’’ سیاسی قیادت کو جب موقع ہی نہیں دیا گیا تو سیاستدانوں کو موردالزام ٹھہرا کر ملک کی تمام سیاسی اور سماجی نا ہمواریوں ، نا انصافیوں اور خرابیوں کی ذمہ داریاں ان کے سر تھونپ دینا اس طبقے کے ساتھ سراسر نا زیادتی ہے ۔