گوادر میں بلوچستان کو حق دوتحریک کے احتجاجی دھرنے کے اختتام پر وزیر اعلیٰ بلوچستان اسٹیج سے اْترنے کے بعد وہاں پر موجود دھرنا کے شرکاء سے گھل مل گئے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے دھرنا میں شرکت کرنے والی خواتین سے بھی ملاقات کی اور اْن کے سامنے کرسی لگا کر بیٹھ گئے۔ خواتین گوادر کے مسائل کے حوالے سے اْن کو اپنا دکھڑا سناتے ہیں۔
بلوچستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خود رو تحریکوں نے سر اٹھانے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ یہ خود رو تحریکیں شخصیات پر انحصار کرتی رہی ہیں جس کی وجہ سے ان کا جنم اور مرگ ایک حقیقی عمل رہا۔ کیونکہ کوئی بھی تحریک شخصیت کی بنیاد پر نہیں چل سکتی بلکہ تحریکیں تنظیمی ڈھانچوں کی بنیاد پر متحرک اور سرگرم ہوتی ہیں جس سے ان کا مستقبل بھی روشن ہوتا ہے۔
سیاست کو عبادت اور خدمت کا درجہ دینے والے نمائندوں نے ہی اب اسے غیر مہذب اور گالم گلوچ کا پلندہ بنا دیا ہے۔ اب تو حقیقت بیان کرنا یا قلمبند کرنا آ بیل مجھے مارنے کے مترادف بن چکا ہے۔ پاکستان میں اب حقیقی سیاست کی جگہ گالم گلوچ، بدتمیزی اور کردار کشی مکمل طور پر ہمارے اندر سرایت کر چکی ہے۔
وہ مستقبل کی لیڈر تھی یہی خوف ان کے قتل کا سبب بنا۔ بانک اگر زندہ رہتی تو بلوچ تحریک کے پاس ان کی موجودگی میں ایک توانا اور مضبوط اعصاب کے مالک لیڈر موجود ہوتی۔ ان کی شہادت سے بہرحال قیادت کا ایک خلا پیدا کیا گیا۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئر پرسن بانک کریمہ بلوچ نے شہادت حاصل کرنے کے بعد بلوچ سماج میں ایک اعلیٰ رتبہ حاصل کیا۔ یقیناً اس کی موت ایک افسوسناک عمل تھا۔ مگر دوسری جانب ایک جرات و بہادری کی علامت بھی تھی۔ اس کے خون نے بلوچ معاشرے میں خواتین اور بچیوں کو ایک اعلیٰ مقام دیا۔ اب تک بے شمار لوگ اپنی بیٹیوں کی پیدائش کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں کریمہ کا نام دیتے ہیں۔ یہ نام دراصل شہادت کی علامت ہے جس کو ہر بلوچ قبول کرنے کے لئے تیار ہے۔
گوادر شہر کا مغربی ساحل مقامی کشتی ساز مزدوروں کا قدرتی صنعتی زون ہے۔ جہاں صدیوں سے ان کے آباؤ اجداد کشتی سازی کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں مگر اب یہ کشتی ساز مزدور اپنے روزگار اور مقام کے مستقبل سے متعلق پریشان ہیں۔ کشتی سازوں کو مقامی لوگ ‘‘واڑو’’ کہتے ہیں۔
عزیز سنگھور کی تحریریں جاندار بھی ہیں اور جانبدار بھی مگر حقائق کی جانبداری اور مظلوموں کے حمایت مں حال ہی ان کی مضامین پر مشتمل ایک کتاب ’’سلگتا بلوچستان ‘‘شائع ہوئی ہے۔ بلوچستان کی حقیقی تصویر اور صورت حال کتاب میں مذکورہ ہے۔ کتاب کی ابتدائی مضامین سے لے کر اشاعت تک اہم اور بنیادی کردار بلوچستان کے مشہور پسندیدہ جریدہ‘‘ روزنامہ آزادی‘‘ کی ہے کہ جس کی لانچنگ پیڈ سے یہ حقائق لانچ ہو کر بلوچستان کی حاکمیت اور حاکم و محکوم کی حالت و حیثیت کو متلاطم کر چکے ہیں ۔
بچے کی خاطر ماں کے دودھ کی اہمیت مسلم ہے۔ یو نیسف نے برسوں کی تحقیق ، مشاورت اور تجربات کے بعد یہ حقیقت سامنے لائی کہ ’’ بچے کے لئے ماں کا دودھ سب سے اچھی غذاہے ‘‘۔امریکہ ،یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں 84 فیصد مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں ۔لیکن پسماندہ ممالک جیسے پاکستان ، انڈیا ،بنگلہ دیش میں صرف 18 فیصد مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں ۔دوسری مائیں بچوں کو ڈبے (جو گائے کا ہی دودھ ہے) یا بکری،گائے،بھینس کادودھ پلاتی ہیں۔
بلوچستان بانجھ نہیں ہے قومی مزاحمتی تحریک کے حوالے سے یہ ایک زرخیز خطہ ہے بلوچ قومی مزاحمتی تحریک بہت پرانی ہے آج کی بات نہیں ہے۔ گل زمین بلوچستان نے جب بھی پکارا تو اس کے باسیوں نے سر بہ کف بچوں بوڑھوں جوانوں خواتین نے نہ صرف اس آواز پر لبیک کہا بلکہ عملی صورت میں وہ کرکے دکھایا جو ہمیشہ سے تاریخ کے صفحات پر کنندہ ہیں۔
ویسے تو ملک کے مختلف صوبوں اور شہروں سے کافی سکینڈلز سامنے آتے رہے ہیں مگر کوئٹہ میں ہونے والا یہ سب سے بڑا سکینڈل ہے ۔اس سے قبل بھی بلوچستان یونیورسٹی کا سکینڈل پیش آیامگر افسوس کہ اس معاملے کو دبادیاگیا اور ملوث مجرموں کو قانون کی گرفت سے آزاد کرایا گیا۔