یہ کتاب سیمیول پی ہنٹنگ ٹن (Samuel P Huntington) ۔(1927-2008)نے لکھی۔وہ ہارورڈ یونیورسٹی کے پرو فیسر تھے۔کتاب بر طا نیہ میں (Simon & Schuster)نے 1996 میں شائع کی۔مصنف نے سویلا ئزیشن(Civilization)،مغرب اور باقی دنیا(West and rest)اور تہذیبوں کے تصادم کے بارے میں خیالات کا ظہار کیا۔ ان کے مطابق بیسویں صدی کے آ خر اور اکیسویں صدی کے شروع تک دنیا کی سیا ست کو سمجھنے میں تہذیبی نقطہ نگاہ مدد گار ہو سکتی ہے۔ ہرتہذیب شہری (urban) اور ہمہ گیر ہو تی ہے۔
آج پوری دنیا میں پانی کا عالمی دن اسی سوچ کے تحت منایا جارہا ہے کہ حکومتوں کی توجہ پانی کی عدم دستیابی اور لوگوں میں پانی کے ضیاع کی روک تھام کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔کرہ ارض میں پانی کے بڑھتے ہوئے مسائل کی بنیاد پر چین بھارت اور مشرقی وسطیٰ سمیت دیگر ممالک کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پانی کو اقوام عالم کے مابین فائدہ اٹھانے اور یہاں تک کہ “دہشت گردی کے مقاصد کو مزید آگے بڑھانے کے لئے ایک ہتھیار” کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی کے عوام کی زندگی کو ریت کے ٹیلوں نے عذاب میں ڈال دیا ہے۔ شہر کے بیشتر علاقے ریت کے ٹیلوں کی زد میں ہیں۔ریت کے یہ ٹیلے متعدد مکانات، اسکول اور کھیل کے میدانوں کو نگل چکے ہیں جس کی وجہ سے سینکڑوں خاندان بے گھر ہوگئے ہیں جس کے بعد یہاں رہائش پذیر افراد بے چینی کی کیفیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لوگ اپنی چھتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ پسنی میں رہائش ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے جبکہ دوسری جانب بلوچستان حکومت کے متعلقہ ادارے اس اہم قدرتی آفت سے بچاؤ کے لئے لوگوں کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔
پاکستان میں مذہبی سطح کی سیاست ہویا پھر بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست ، ان میں بلند پایہ کے سلجھے ہوئے سیاستدان اور قومی رہنما موجود ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کا آدھے سے زیادہ حصہ سیاسی اور قومی جدوجہد میں گزارا۔قومی سطح کی سیاست ہو یا پھر صوبوں کی بدقسمتی سے اس میں اسٹیبلشمنٹ اور پس پردہ قوتوں کا ہمیشہ سے مداخلت رہا اور انھوں نے مختلف ادوار میں مذہبی ،سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کواپنے مفادات اور مرضی کے فیصلے کرنے کے لئے استعمال کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ سیاست اور سیاسی معاملات میں مداخلت بڑھائی گئی ۔
سیاست کو بلاشبہ عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے اور عوام و انسانیت کی خدمت عبادت سے ہرگز کم نہیں اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں اپنی سوچ اور نظریات پر کاربند رہ کرعوام اور علاقے کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خدمت کرکے عبادت کی طرح اپنے مقاصد طے کرتے ہیں۔ نظریات ایک اصول اور عمل ہی کی مانند ہوتی ہیں جہاں سوچ اور خیالات کے باہمی ملاپ سے ہی نظریات چٹان بن کر سیاسی قائدین اور جماعتوں کو کامیابی وکامرانی سے ممتاز کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی آزادی بھی ایک نظریہ اور انسانیت کی خدمت اور اسلامی و فلاحی مملکت کے قیام کی بنیاد تھی۔
چمن ٹوکراچی روڈ اور دیگر بلوچستان کی شاہراہوں کی حالت زار اور انھیں ڈبل کرنا بھی بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ دستخط ہونے والی چھ نکات کا حصہ ہے۔ اس معاہدہ کے تحت کراچی ٹوچمن روڈ پائپ لائن میں شامل ہوا اور گزشتہ فیڈرل پی ایس ڈی پی میں اس کے لیے فنڈز فراہم نہیں کیے گئے اور منصوبہ پائپ لائین ہی میں رکھا گیا اور اسکی فیزبلٹی رپورٹ تک کے لیئے فنڈز کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی گئی اور گزشتہ سال فزیبلٹی رپورٹ کے لیئے بڈز بھی طلب کی گئیں۔ یہ بھی واضح ہو کہ وزیراعلیٰ صاحب نے بھی گزشتہ سال فیڈرل پی ایس ڈی پی کے وقت بھی اس پر احتجاج کیا تھا کہ اس منصوبے کو فیڈرل پی ایس ڈی پی میں شامل نہ کرنا ناانصافی ہے اور انھیں بھی گزشتہ سال یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ بی این پی کے چھ نکات پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب بی این پی نے حکومت سے رائیں الگ کرلیں لیکن اس معاہدہ کے تحت جو منصوبے پائپ لائین میں رہ گئے تھے۔
اگر موجودہ حکومت کے سیاسی ثمرات کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ سرکار پاکستان کے تاریخ کی واحد سرکار ہے، جو کسی بھی صورت وفاقی تو دور کی بات، “حکومت” ہی نہیں لگ رہی۔ وفاقی سرکار اب ایسا چوہدری، یا وڈیرا بن گئی ہے جو کسی بھی کسان کی فصل اترنے پر آکر کھڑا ہو جاتا ہے اور سارا غلہ پانی اپنے گھر اٹھا کر لے جاتا ہے۔ یوں تو سندھ کی تمام ہسپتالیں بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں، لیکن کراچی کا سول ہسپتال، جناح ہسپتال، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ، سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) اور سندھ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو وسکیولر ڈزیز (این آئی سی وی ڈی) انتہائی اہم ہسپتالوں میں شمار ہوتے ہیں، اور ان کے چرچے زبان زد عام ہیں، جب کسی بھی مریض کو کہیں بھی بچنے کی تسلی نہیں رہتی تب اس کو ان ہسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے، اور یہ پیپلز پارٹی کی کاوشوں اور مخیر حضرات کی صدقِ دل سے دی جانے والی امداد کا نتیجہ ہے کہ ان ہسپتالوں سے شاید ہی کوئی مایوس لوٹتا ہے، وگرنہ تو لوگ تندرست و توانا ہو کر یہاں سے اپنے گھر جاتے ہیں۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سندھ لٹریچر فیسٹیول میں بعنوان‘‘بلوچ تاریخ اور سیاست’’کے انعقاد پر پابندی عائد کردی گئی۔ سیشن کو عین موقع پر جبراً منسوخ کروادیاگیا۔ شایدوہ علم و ادب سے خوف کھاتے ہیں اور مکالمے و دلیل سے ڈر تے ہیں۔ حق اور سچ کی آواز کو جتنا دبانے کی کوشش کی جائے یہ اتنا ہی گونج اٹھتی ہے۔ اور وہ آواز آرٹس کونسل سے چند کلومیٹر فاصلے پر قائم باغ جناح میں گونجی۔ جہاں شرکاء نے مقررین کے ساتھ سیشن کا انعقاد کیا۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ بلوچ سیشن کہیں بھی ہوسکتا ہے بلوچ کے لئے سیشن رکھنے کے لئے پلیٹ فارم کی ضرورت نہیں ہے۔ 70 سالوں سے بلوچ سڑکوں پر دھرنا اور احتجاج کررہے ہیں اب بلوچ عادی ہوچکے ہیں۔ بغیر آڈیٹوریم کے بلوچ سیشن کا انعقاد کرواسکتے ہیں۔ اس کے لئے آڈیٹوریم کی ضرورت نہیں ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) کے حوالے سے اس قدر اعلانات، دعوے، بیانات، تجزیے اور اقدامات سامنے آ چکے ہیں کہ سی پیک کے حوالے سے چائنا نہ سہی پاکستان کے ہر صوبے کے لوگوں کے دل و دماغ امیدوں ، توقعات اور خدشات سے لبریز ہوچْکے ہیں۔ اور اگر یہ بات گوادر میں بیٹھ کر کی جائے تو یہاں امید اور خدشات کئی گنّازیادہ بڑھ چکے ہیںکیونکہ گوادر ہی وہ مقام ہے جو اقتصادی راہداری کا ایک طرف سے نقطہ آغاز اور دوسری طرف سے نقطہ اختتام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چراغ تلے اندھیرا ہے۔ گوادر جس کے تینوں اطراف نیلگوں سمندرہے لیکن گوادر والے آج بھی پانی کے ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ گوادر کے شہریوں کو 20/25 دن کے بعد ایک گھنٹہ آدھی انچ کے پائپ سے مضرِ صحت پانی دیا جاتاہے۔ گوادر کی قدیم آبادی کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہے ۔
ضلع لسبیلہ میں جعلی رہائشی اسکیموں کی بھرمارہوگئی ہے۔ مقامی افراد کی جدی پشتی اراضی پر قبضہ کرنے کاسلسلہ جاری ہے۔ بلڈر مافیا کو متعلقہ افسران کی سرپرستی حاصل ہے، ان کے مسلح افراد دن دھاڑے لوگوں کی اراضی پر گن پوائنٹ پر قبضہ کررہے ہیں۔ پیرکس روڈ، بھوانی، حب بائے پاس،ساکران روڈ سمیت دیگر علاقوں میں رہائشی اسکیموں نے ایک سونامی کی صورت اختیار کرلی ہے۔ جگہ جگہ سائن بورڈز آویزہ کردیئے گئے ہیں۔ لسبیلہ کے مقامی قبائل کی اراضی محفوظ نہیں ہیںجن میں سیاہ پاد، موٹک، گجر، منگیانی سمیت دیگرقبائل شامل ہیں۔