1971میں حالات کے جبر اور ہماری سنگین غلطیوں سے لگنے والے تاریخ کے زخم بھرنے اور جذبہ انتقام کے سرد ہونے کے لیے پچاس سال کا عرصہ کافی ہے۔ اس عہد کی تاریخ لکھنے کے حوالے سے پاکستان اور بنگلا دیش کے اپنے اپنے مسائل ضرور ہیں لیکن یہ تسلیم کرنے کا وقت آچکا ہے کہ ہمیں اب آگے بڑھنا ہوگا۔ 80 کی دہائی اور بعدازاں 21ویں صدی کے آغاز پر ہمارے تعلقات بہتری کی راہ پر تھے۔ اس حوالے سے حمو دالرحمان کمیشن رپورٹ کی اشاعت ان قربتوں کو بڑھانے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہوسکتی تھی۔
حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا ملتان میں ہونے والا جلسہ حکومت کی مرہون منت یا اتفاقاً حکومتی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یادگار اور دلچسپ بن گیا تھا۔اگر حکومت آرام سے یہ جلسہ کرنے دیتی تو شاید یہ جلسہ گوجرنوالہ،کراچی،کوئٹہ اور پشاور میں ہونے والے جلسوں کی طرح ہو جاتا اور اتنی پذیرائی نہ ملتی۔اس جلسے کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں،ایک ہزار پولیس افراد کو تعینات کر کے اسٹیڈیم اور گھنٹہ گھر چوک کو سیل کر دیا گیا تھا،قاسم باغ کو تالے لگا کر بند کر دیا گیا تھا،موبائل انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی تھی۔
دستیاب تاریخ میں بلوچستان کا جغرافیہ ہمیشہ مدوجزر کی زد میں رہا ہے لیکن پچھلے ستر برسوں میں یہ سرزمین تاریکی کے آخری حدود کو چھو رہا ہے۔ یہ کارنامہ بھی انہی لوگوں نے انجام دئیے ہیں جو ہمیشہ خوشحال بلوچستان کے گن گاتے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ لوگ جو دائمی طورپر بلوچ کی زندگی کو بدلنے کی راگ الاپتے رہے ہیں ماسوائے اپنے اور اپنی اولادوں کے جائیدادوں میں بے پناہ اضافے کے اور کچھ نہ کیا۔ بلوچستان میں کئی سیاسی پارٹیاں ہیں جو ہمیشہ وفاقی حکومت کے تابع رہی ہیں۔ وفاق میں جس کی حکومت آتی ہے۔
فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) میں مسلسل بڑھتی ہوئی کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے ماہی گیروں میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ اس تشویش اور بے چینی نے ماہی گیروں کو سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور کردیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں ماہی گیروں نے کراچی بندرگاہ کو ملک سے ملانے والی مین شاہراہ نیٹی جیٹی پل کو کئی گھنٹے بلاک کیے رکھا۔اس احتجاجی دھرنے میں تمام ماہی گیر جماعتوں نے حصہ لیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اسی طرح کی لوٹ مار اور کرپشن کی وجہ سے فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) کے دو سابق چیئرمینز گزشتہ دو سال سے اب تک نیب کے کیس میں جیل میں بند ہیں۔
بلوچ سرزمین کی وحدانیت کو پارہ پارہ کرنے کی سازشوں کا آغاز انگریز سامراج کے اس خطے میں قدم جمانے کے بعد شروع ہوا ۔ 1876 میں برطانوی راج نے مرحلہ وار بلوچستان کو تین حصوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا تھا مقربی حصہ ایران کے حوالے کردیا گیا جو اس وقت سیستان بلوچستان کے نام منسوب ہے، مشرقی حصہ جو اب پاکستان کا حصہ ہے اسے بھی برٹش بلوچستان جو ڈیرہ جات، جیکب آباد (خان گڑھ) کوئٹہ، نصیر آباد اور پشتون علاقوں پرمشتمل تھا اور قلات اسٹیٹ کے نام سے دو حصوں میں بانٹ دیا گیا تھا، قلات اسٹیٹ کو چار الگ الگ خودمختار ریاستوں مکران۔
بلوچستان میں سیاسی فرسٹریشن موجود ہے جس کی وجہ سے بلوچ عوام سراپا احتجاج ہیں۔کوئی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے احتجاج میں مصروف ہے تو کوئی جبری برطرفی کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔ تو کوئی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے صدائے احتجاج بلندکررہا ہے۔دراصل سیاسی فرسٹریشن کے پیچھے بیڈگورننس ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان کے عوام کو پسماندہ رکھنے کیلئے ظلم و جبر، سماجی ناانصافیوں کی پالیسیوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی یہاں کے عوام زندگی کی تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے منتخب وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی 76 برس کی عمر میں راولپنڈی کے آرمڈ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہسپتال میں خالق حقیقی سے جا ملے۔میر ظفر اللہ جمالی کا شمار بلوچستان کے چند ان معتبر اور نمایاں سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے وفاقی حکومتوں کے ساتھ سیاست کو ترجیح دی اور صوبے میں مقبول قوم پرستی کے رجحان سے خود کو دور رکھا۔انہیں صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے اور اب تک کے آخری منتخب وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔وہ نگراں وزیراعلیٰ اور وزیراعلیٰ بلوچستان بھی رہے۔اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی وزیر سمیت وہ دوبار سینٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔
3نومبر کو امریکی انتخاب سے لے کر آئندہ برس 20جنوری کو نئے صدر کے حلف لینے تک یہ دن بے یقینی کے ہیں۔ جن ریاستوں میں ٹرمپ کے خیال میں بڑی انتخابی دھاندلی ہوئی تھی وہاں بھی ان کے اپنے مقرر کردہ ججوں نے ان کے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ اپنی انتخابی فتح پر بضد ہیں۔ اب تو ٹرمپ کے اٹارنی جنرل ولیم بار جیسے قریبی ترین ساتھی بھی ان کے انتخابی دھاندلی کے بیانیے کو اعلانیہ بے سروپا قرار دے چکے ہیں۔ حال ہی میں سامنے آنے والے ٹرمپ کے پیغام پراب کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
کہتے ہیں کسی شہر میں ایک پاگل رہتا تھا جو روزانہ شہر کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا اور سارا دن چلاتا رہتا، لوگو اٹھ جائو اب… اپنے حق کے لیے لڑو… کب تک یونہی غلامی کرتے رہو گے… لوگ اس کی باتوں پر ہنستے اس کا مذاق اڑاتے، کہ غلامی ختم ہو گی کیسے ہو گی کون کرے گا… کس کو موت آئی ہے عذاب اپنے سر لینے کی … پاگل ناقابل برداشت ہو جاتا تو وہ اسے پتھر مارتے مگر وہ پاگل بھی ڈھیٹ تھا مار کھاتا رہتا مگر پھر شروع کر دیتا وہی رام لیلا … آخر لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے….. بس وہ پاگل روز صبح شروع ہو جاتا۔
مکران میں ڈرگ مافیا کے خلاف چلنے والی تحریک نے منشیات کی روک تھام میں سرکاری اداروں کی ناکامی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے منشیات فروشوں کے خلاف نئی حکمت عملی اپنانے کا عزم کرلیا۔ انسداد منشیات تحریک کے بانی رہنماؤں نے منشیات فروشوں کے رشتہ داروں پر زور دیا اگر کسی کے خاندان کا فرد منشیات فروشی میں ملوث پایاگیا تو اس کا بھائی یا رشتہ دار اس کا سوشل بائیکاٹ کریں۔ اس سے تمام سماجی رشتوں اور ناطوں کا خاتمہ کریں۔یہ سماجی تعلقات کے خاتمے کا فیصلہ انسداد منشیات کمیٹی بلیدہ زامران نے کیا ہے۔