|

وقتِ اشاعت :   May 25 – 2016

بلوچستان اسمبلی دراصل اقتدار کا سرچشمہ ہے یہی قانون ساز ادارہ ہے اور بلوچستان کے مفادات کا سب سے بڑا نگہبان ہے اگر صوبائی اسمبلی یہ کام سرانجام نہیں دیتی اور اراکین اسمبلی کے ذاتی اور گروہی مفادات کی حفاظت کرتی ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ بہر حال سابق سیکرٹری اعظم داوی کی معطلی تصویر کا ایک دوسرا رخ پیش کرتی ہے ۔ اس حکم نامے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ طاقتور عناصر موصوف کو قرارواقعی سزا دینے میں نہ دل چسپی رکھتے ہیں اور نہ ارادہ کہ ان کو اس کے گناہوں کی سزا ملک کے رائج قوانین کے مطابق ملے۔ ان کی معطلی کیلئے جو سرکاری اعلامیہ جاری کیا گیا ہے کہ اس نے تیس افراد کو اسمبلی کی ملازمتیں فراہم کیں اور رائج رولز کا پاس نہیں رکھا اور نہ ہی قانونی تقاضے پورے کیے بلکہ ایک خود سرآمر اور جابر کی طرح ان تیس افراد کو غیر قانونی طورپر ملازمتیں فراہم کیں۔ اس سے بلوچستان اسمبلی کے اپنے ہی قوانین کی زبردست اور کھلی خلاف ورزی ہوئی ان کو بعد میں ملازمت سے بر طرف کردیا لیکن ایک عدالت نے ان کی بحالی کا حکم جاری کیا ۔معلوم نہیں کہ اس عدالتی حکم کو کسی نے چیلنج کیا یا نہیں۔ ایک اور الزام یہ ہے کہ اس نے اپنے بیٹے فاروق احمد کو ڈپٹی سیکرٹری گریڈ 18کی نوکری دی ۔ مروجہ قوانین کے مطابق گریڈ 18کے ڈپٹی سیکرٹری کے پوسٹ کے لئے براہ راست بھرتی نہیں کی جاسکتی بلکہ سینئر افسر کو اس عہدے پر ترقی دی جاتی ہے ۔ اس طرح اسمبلی کے سابق سیکرٹری اقربا ء پروری میں ملوث پائے گئے اور اس کا ثبوت موجود ہے۔ ان پر یہ زیادہ سنگین الزام ہے کہ اس نے اسمبلی کے ملازمین کی بے عزتی کی اور ان کے ساتھ سر عام بد سلوکی کی ۔ بڑی تعداد میں اسمبلی کے ملازمین نے ان کی شکایت اسمبلی کے اسپیکر کو وقتاً فوقتاً دی تھی اور اس رویہ پر سخت احتجاج بھی کیا تھا، اسپیکر کی آئے دن کی سرزنش کے باوجود ان کا رویہ ماتحت ملازمین کے ساتھ ہتک آمیز رہا ۔وہ اسمبلی کی فضاء کو مکدر کرتا رہا، کئی بار اس کی انتظامی کارروائی خصوصاً ملازمین کے ساتھ اسمبلی کے لئے سبکی کا باعث بنا اور ملازمین نے ان کے قابل اعتراض کارروائی کے خلاف عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے اوریوں اسمبلی کی بدنامی ہوئی کہ اسمبلی اپنے ملازمین کے ساتھ شائستہ رویہ نہیں اپنا تا خصوصاً بعض اہل ملازمین کی ترقی کو روکا گیا ، بعدازاں اعلیٰ عدالت نے متعلقہ افسران اور ملازمین کو انصاف فراہم کیا ۔ ایک سلیم جہانگیر نامی ملازم جو ایک مترجم کے طورپر کام کرتا تھا اور گریڈ 17کا افسر تھا نامعلوم وجوہات کی بناء پر ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی اور اس کی گریڈ 18سے گریڈ11 میں تنزلی کی گئی اور بعدمیں اسکو جبری طورپر ریٹائرڈ کردیا گیا۔ اس طرح سے صوبے کے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ پورے اسمبلی کے وقار کو ذاتی عناد کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، ایک بار پھر وہ اسمبلی کی سبکی کا باعث بنے جب انہوں نے گریڈ 19کے افسر جو ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے پر تعینات تھے ان کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے۔ یہ سب کچھ ان کے اختیار میں نہیں تھا یہ اختیار صوبائی محکمہ انتظامیہ اور خدمات کے پاس تھا۔ ایسے واقعہ سے اسمبلی کی سیکرٹریٹ کو زبردست شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس سے قبل اس قسم کے احکامات کی وجہ سے سابق اسپیکر قومی اسمبلی ، سید یوسف رضا گیلانی جو بعد میں پاکستان کے وزیراعظم بنے ان کو جیل جانا پڑا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انکو انسداد بد عنوانی کی عدالت یا نیب کی عدالت میں کیوں نہیں لے جایا گیا اس کے ساتھ یہ نرمی کا سلوک کیوں اپنایا گیا؟ وہ کرپٹ ہے بے ایمان ہے ، بد دیانت ہے اس کو بچانے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے؟ وجہ یہ ہے کہ سابق سیکرٹری بلوچستان اسمبلی نے طاقتور لوگوں کے بچوں کو روزگار فراہم کیا تھا وہی طاقتور لوگ اس کے پشت پناہ ہیں جنہوں نے مستحق لوگوں کا حق غصب کیا ۔ اس کے باجود سیکرٹیری صاحب کو کوئی سزا نہیں دی گئی صرف معطلی کافی نہیں ان کو جیل میں ہونا چائیے کیونکہ اس نے لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا تھا ۔