|

وقتِ اشاعت :   June 18 – 2017

معلو م ہوتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان وقت سے پہلے انتخابات کرانے کی کوشش کررہے ہیں جی آئی ٹی کے سامنے سوالات کے جوابات دینے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ ان کے خاندانی بزنس پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں سپریم کورٹ اور پارلیمان میں خود ان کی اپنی تقریر گواہ ہے کہ انہوں نے خود کو احتساب کے لئے پیش کیا تھا تاکہ عوام یہ تمام معاملات سڑکوں پر نہ لے جائیں ۔

ان کو پارلیمان یا سپریم کورٹ میں حل کرائیں اب ان کا لہجہ بدل گیا ہے اور وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کے ذاتی اور خاندانی بزنس کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔

پورے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں تاجر ہیں صنعت کار ہیں کوئی ان کی تجارت پر انگلی نہیں اٹھاتا آپ تاجر اور صنعت کار ہیں تو اپنی بزنس کے اندر رہتے اور سیاست میں مداخلت نہ کرتے تو نہ کوئی آپ کا نام جانتا اور نہ ہی آپ کے خاندانی بزنس سے متعلق سوالات اٹھاتا۔

جب آپ سیاست میں آئے اور ساتھ ساتھ بزنس بھی کرتے رہے اور ساتھی صنعت کاروں اور تاجروں کی بڑے پیمانے پر امدادبھی کرتے رہے ریاستی ادارے جو منافع پر چل رہے تھے ان کو کوڑیوں کے دام فروخت کرتے گئے اور سرکاری خزانہ کو نقصان پہنچاتے رہے تو یہ حزب اختلاف کا حق بنتا ہے کہ آپ کوبحیثیت وزیراعظم انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔

اسلامی تاریخ کا واقعہ مشہور ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیق خلیفہ بن گئے تو دوسرے دن صبح کو جلدی جلدی اپنے کپڑے کی دکان پر جارہے تھے تو راستے میں حضرت عمر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے امیر المومنین سے پوچھا کہاں جارہے ہو تو حضرت ابو بکر نے جواب دیا کہ دکان کھولنے جارہا ہوں۔

اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اب لوگ کپڑے امیر المومنین کی دکان سے خریدیں گے۔ اس واقعہ کامقصد یہ ہے کہ تاجروں اور صنعت کاروں کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چائیے ورنہ وہ تجارت چھوڑ دیں اور سیاست میں آئیں او ر عام آدمی کی طرح سیاست کریں ۔1983

کی ایم آر ڈی تحریک کے بعد پنجاب کی سیاست میں بڑی تبدیلی لائی گئی عام سیاستدانوں کو سیاست سے بے دخل کیا گیا اور تاجروں ،صنعت کاروں اور دولت مندوں کو سیاست کے حوالے کیا گیا۔

اب پنجاب میں لاکھوں کی تعداد میں ارب پتی ہیں، روایاتی ارب پتی خصوصاً گجراتی بولنے والوں کا نام و نشان مٹ گیا ہے قیام پاکستان سے قبل والے ارب پتی ملک سے غائب ہوگئے ہیں اور چند لاکھ روپے کی فونڈری چلانے والے اربوں ڈالر اور جائیداد کے مالک ہیں اتنی بڑی دولت صرف اور صرف سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔

تجارت کے پانچ یا دس فیصد منافع سے اتنی بڑی دولت جمع نہیں ہو سکتی ۔ گجراتی سرمایہ کار ارب پتی تھے ان کا حکم تھانے کے ایک سپاہی پر نہیں چلتا تھا جبکہ موجودہ دور میں عدالت عالیہ کو براہ راست دھمکیاں دی جارہی ہیں بلکہ گزشتہ دور حکومت میں بریف کیس سے عدالت کو خریدا گیا تھا اگر کسی چیف جسٹس نے دولت قبول نہیں کی تو اس پر حملہ کیا گیا ۔

پنجاب کا ارب پتی ملک کا حکمران ہے اس لیے اس کا پورا گروہ اس بات کی زبردست مزاحمت کرتا نظر آرہا ہے کہ وہ اقتدار نہیں چھوڑیں گے ۔

عدالت کے فیصلے سے قبل ہی وہ انتخابات کرائیں گے اور احتساب سے بچ جائیں گے۔ لیکن شاید اس بار ایسا نہ ہوسکے کہ ملک کے اندر انتخابات کرانے کا ماحول نہیں ہے پاکستان چاروں طرف سے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے ۔

چند دن قبل امریکی ڈرون حملہ ہنگو کے ایک گاؤں میں ہوا جہاں حقانی نیٹ ورک کمانڈر اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ مارا گیا ۔

دوسری طرف ہماری حکومت کوامریکی حکومت سے احتجاج کرنے کی توفیق نہیں کہ امریکی ڈرون نے پاکستان کی سالمیت کے خلاف حملہ کیا اس پر وزیراعظم خامو ش ہیں، ایک لفظ بھی بولنے کی ہمت نہیں ۔

آنے والے دنوں سے متعلق بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سیکورٹی کے معاملات اتنے سنگین ہوسکتے ہیں کہ عوام انتخابات کا تصور ہی نہ کریں ۔