|

وقتِ اشاعت :   September 9 – 2017

صوبائی وزیر منصوبہ بندی اور ترقیات ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے متحدہ پختون صوبے کا مطالبہ کیا ہے ۔ چمن میں گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پختون چار صوبوں میں تقسیم ہیں اس لئے ان کا ایک متحدہ صوبہ بنانا چائیے ۔

ہم نے ان کالموں میں اس مطالبے کی ہمیشہ حمایت کی ہے ، پختونوں کی وفاق پاکستان میں نمائندگی اس وقت بھر پور ہوگی جب ایک متحدہ پختون صوبہ وجود میں آئے گا۔ چنانچہ سنجیدہ سیاستدانوں نے یہ تجویز پیش کی تھی بلکہ اس کا بھر پور مطالبہ کیا تھا کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیاجائے ۔ 

حکومت نے فاٹا سے متعلق اصلاحات کے لئے کمیشن بنایا تھا ، اس نے بھی یہ تجویز دی تھی کہ فاٹا کو کے پی کے میں شامل کیاجائے ۔ پورے ملک میں ان اصلاحات کی مخالفت محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان نے کی تھی شاید محمود خان اچکزئی پر یہ خوف طاری ہے کہ چھوٹے صوبے بلوچستان کی وجہ سے وہ سیاسی طورپر بہتر پوزیشن میں ہیں فاٹا کی ‘ کے پی کے میں شمولیت کے بعد یہ مطالبہ زیادہ زور پکڑ ے گا کہ افغانستان کے تمام مفتوحہ علاقوں کو بھی کے پی کے میں شامل کیاجائے ۔

اس سے ان کے سیاسی قد پر منفی اثرات پڑنے کا اندیشہ ہے ، شاید اسی وجہ سے انہوں نے فاٹا میں اصلاحات کی مخالفت کی ۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کے پی کے چند جنوبی اضلاع میں موجود ہے ۔ موجودہ اسمبلی میں اس کی قابل ذکر نمائندگی موجود ہے ۔

فاٹا کے کے پی کے میں ضم ہونے کے بعد ان کی پارٹی سکڑ جائے گی اور اس کی نمائندگی کم سے کم تر ہوجائے گی کیونکہ جہاد کے حوالے سے مذہبی درس گاہوں کی وجہ سے ان کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہے ۔

مگر ان کا فاٹا میں کوئی ووٹ بنک نہیں ہے اور نہ ہی اس کی امید ہے کہ ان کے ووٹ بنک میں اضافہ ہوگا نیزمولانا فضل الرحمان اور ان کی پارٹی کی اہمیت مزید کم ہونے کے امکانات ہیں ۔ شاید اس لیے انہوں نے فاٹا کو کے پی کے میں شامل کرنے کی مخالفت کی ۔ 

ورنہ دوسری صورت میں مولانا فضل الرحمان کو ہر سال امام کعبہ کو کے پی کے میں آنے کی دعوت دینی پڑتی تاکہ ان کا ووٹ بنک محفوظ رہے ۔ دوسری طرف ملک بھر کی جمہوری قوتوں نے اس کی حمایت کی کہ فاٹا میں اصلاحات کی جائیں ،اوروہاں پر عوام کے آئینی حقوق بحال کیے جائیں تاکہ ایک ملک کے اندر دو قانون نہ ہوں ۔ نا معلوم وجوہات کی بنا پر ہماری مقتدرہ نے بھی اس کی مخالفت کی ۔ 

اس کا اعلان وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے فاٹا کے نمائندوں کی موجودگی میں کیا کہ مقتدرہ اس کی مخالف ہے ۔ اس کے بعد محمودخان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان کے بیانات کی وضاحت ہوگئی کہ کیوں فاٹا کو کے پی کے میں شامل کرنے کی مخالفت کی جارہی ہے خصوصاً وہاں اصلاحات کی مخالفت کی جارہی ہے۔ 

بلوچستان اور ملک بھر کے جمہوریت پسند اور سیاسی عناصر اس بات کے حق میں ہیں کہ پختونوں کا ایک متحدہ صوبہ ہونا چائیے اور دوسرے تمام صوبوں سے ان کی نمائندگی ختم ہونی چائیے خصوصاً بلوچستان سے نمائندگی نہیں ہونی چائیے ۔

بلوچ قوم پرست جماعتوں اور بلوچ رہنماؤں نے کبھی بھی انتخابات کے دوران افغان مفتوحہ علاقوں کا رخ نہیں کیا اور نہ ہی اس کو بلوچ قومی سرزمین کا حصہ تصور کیا ۔ 

بلوچوں نے ان علاقوں کو بلوچستان میں شامل کرنے کی مخالفت کی تھی ایک انگریز نو آبادیاتی دور میں اور دوسری بار جب جنرل یحییٰ خان صوبے بحال کررہے تھے تو اسکی سخت مخالفت کی گئی کہ ان علاقوں کو بلوچ سرزمین کے ساتھ شامل نہ کیاجائے۔ 

اگر کوئی دوسرا حل نہیں تو ان علاقوں پر فاٹا کی ایک نئی ایجنسی بنائی جائے اور اس کو فاٹا کا حصہ بنایا جائے ۔بہر حال ان علاقوں کا بلوچ سرزمین سے کوئی تعلق نہیں ،اس لیے یہاں کے لوگ وفاق پاکستان میں بلوچ یونٹ کی نمائندگی نہ کریں اور فوری طورپر استعفیٰ دیں۔ 

ان کے بجائے نئے نمائندے بلوچ قومی سرزمین سے چنے جائیں، وہ اپنے علاقوں میں کتنے انتظامی اضلاع بناتے ہیں ان کی مرضی پر منحصر ہے ۔ بہر حال سیاسی طورپر چھ سب تحصیلوں کو ضلع کا درجہ دینے کا مطلب صرف یہ ہے کہ بلوچستان کے انتظامی اخراجات میں مزیدغیر ضروری اضافہ کیا جائے ۔