|

وقتِ اشاعت :   October 8 – 2017

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے سربراہ میر اسرار اللہ زہری نے کہا ہے کہ بلوچستان کے عوام منافق اور منافقت کرنے والے سیاستدانوں سے بخوبی واقف ہیں جنھیں منافقت کرنے کی پاداش میں کسی بھی جماعت میں نہیں لیا جارہا تھا ۔

بی این پی عوامی کسی بھی قومی مخبر کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرنا نہیں چاہتی لیکن بلوچستان کے عوام کو حقائق سے آ گاہ اور منافقت کرنے والے سیاستدانوں کی ماضی یاد دلانا ضروری سمجھتی ہے۔

بی این پی عوامی کے سربراہ میر اسرار اللہ زہری کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کے عوام کیلئے چند حقائق پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں جب بی این پی متحدہ تقسیم ہوگئی تو اس تقسیم اور اختلافات کو ہوا دینے میں موجودہ نیشنل پارٹی کے صدر حاصل بزنجو کا نمایا کردار تھا جسے عام الفاظ میں (منافق) کہا جاتا ہے ۔

متحدہ بی این پی کی تقسیم ہونے کے بعد بی این پی (مینگل) اور بی این پی (عوامی) کے نام سے دو گروپ بننے،یہ موصوف اس وقت خود کو بی این پی مینگل کے ساتھ جڑے رکھا جب ان دوستوں کو ان کی حرکات اور سکنات مشکوک نظر آنے لگے تو اسے واضح طور پر اپنے صفحوں سے الگ کردیا گیا تو یہ بیچارہ سیاسی یتیم کے طور پر کوئٹہ کے گلیوں در پدر پھرتا ہوا پایا جاتا تھا پریشانی کے عالم میں موصوف نے سید احسان شاہ سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔

اس ہی احسان شاہ نے موصوف کو اٹھا کر بی این پی عوامی کے دوستوں تک پہنچایا تاکہ اس منافق کو پارٹی میں شامل کیا جاسکے،بی این پی عوامی کے دوستوں کی اکثریت کی یہ رائے تھی کہ موصوف منافقت کی بیماری میں مبتلا ہے پہلے اس کے علاج و معالجہ کا بندوبست کیا جائے تاکہ موصوف اس بیماری سے نجات حاصل کرسکیں لیکن موصوف نے تمام دوستوں کے سامنے اقرار کیا کہ وہ آئندہ کوئی منافقت نہیں کرینگے ۔

کیونکہ موصوف دونوں گروپوں کے سامنے مشکوک ہوچکا تھا لیکن آخر کار میر غوث بخش بزنجو کی قبر کی خاطر موصوف کو بی این پی عوامی کے دوستوں نے شمولیت کی اجازت دیدی ، یہ اس دور کی بات ہے جب پرویز مشرف کی دور حکومت تھی موصوف نے باقائدہ بی این پی عوامی میں شمولیت اختیار کیا

لیکن کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ہی پھر سے احسان فراموشی شروع کردی جس کے وجہ سے انھیں ایک مرتبہ پھر بی این پی عوامی سے نکال باہر پھینک دیا جس کے بعد وہ سیاسی یتیم ہوگیا ۔

بعدازا سمبھل کر بی این ڈی پی کے نام سے اپنا ایک گروپ بنایا اور ان کے حرکتوں کی وجہ سے وہ گروپ بھی نہیں چل سکا موصوف نے رئیس ڈاکٹر مالک بلوچ سے ڈاکٹر یوسف بزنجو کے ذریعے رابطہ کیا کیونکہ دونوں کلاس فیلو اور دوست تھے ۔

ان کی پارٹی میں ضم ہوکر اپنی عافیت جانی لیکن عادتوں کے مجبور شخص کو وہاں بھی عزت راس نہیں آئی اور وہاں بھی اپنی ان ہی حرکتوں سے ڈاکٹر مالک اور ڈاکٹر حئی کے درمیان اختلافات پیدا کرکے ان کو بھی تقسیم کردیا اور کچھ عرصے گزرجانے کے بعد موصوف نے اپنے آپ کو نیشنل پارٹی کا مرکزی صدر بنوانے میں کامیاب ہوگیا اب نہ جانے کس دن ڈاکٹر مالک کو جیل میں ڈلواکر اگلا نشانہ کس کو بناتے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا ۔

میر اسرار اللہ زہری نے کہا کہ بلوچستان کے باشعور عوام بخوبی واقف ہیں کہ موصوف کا کوئی بھی سیاسی سمت نہیں بلکہ بلوچستان کی سیاست میں ایک سیاسی مسافر کی طرح اپنی ذاتی ترجیحات تبدیل کرتے کرتے اپنے عمر کے آخری حصے تک پہنچے جو بڑا ضروری ہوتا ہے گھر میں گزارنے کیلئے اب وہ کہاں روکیں گے ۔

یہ انھیں بھی معلوم نہیں کیونکہ نال میں موصوف کو لوگ کس قدر جانتے ہیں یہ سب کو معلوم ہے یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ موصوف اپنے آبائی علاقے رات کے اندھیرے میں جاتے ہیں اور واپسی بھی رات کے اندھیرے میں ہی ہوتی ہے ۔

جو کہیں سال بعد ہی اس طرح کے چکر لگانے کو موصوف کو وقت ملتا ہے کیونکہ منافقت کی سیاسی دکانداری میں موصوف کچھ زیادہ ہی مصروف رہتے ہیں اگر ان سے میر غوث بخش بزنجو کے بیٹھے کا رشتہ الگ کیا جائے تو موصوف کی سیاسی اور اخلاقی اکاونٹ میں مستند منافقی کا ٹائٹل رہ جائیگا ۔

بلوچستان کے ان پر آشوب صورتحال میں بلوچ قوم ایسے منافقانہ سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا بی این پی عوامی نے منافقانہ سیاست کی ہے نہ کرنا کرسکتا بلوچستان کو لوٹنے والے منافقین نے منافقانہ سیاست میں چند وزارتیں حاصل تو کرلیں لیکن کیا کھویا وہ بلوچستان کے عوام بخوبی جانتے ہیں۔