|

وقتِ اشاعت :   December 6 – 2017

ایرانی صدر نے چاہ بہاربندر گاہ کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بندر چاہ بہار کی تعمیر پر ایک ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ اس میں سے بھارت 23کروڑ 50لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بندر گاہ کی تعمیر اور توسیع پر 50کروڑ ڈالر خرچ کرے گا۔ بندر گاہ میں دو الگ برتھیں بھارت کے لئے خصوصی طورپر مخصوص ہوں گی ۔ 

یہ 1990ء کی دھائی کی بات ہے جب امریکی کمپنی یونین ٹیکساس نے بدین تیل کے ذخائر اور پوری سرمایہ کاری فروخت کردی اور سرمایہ ترکمان گیس پر لگانے کا اعلان کیا۔ پھر امریکی کمپنی یونی کول کے نمائندوں نے طالبان وزراء سے مذاکرات کیے ۔ 

اطلاعات کے مطابق طالبان نے امریکی کمپنی سے دو ارب ڈالر نقد اور پچاس ہزار ملازمتوں کا مطالبہ کیا ۔ اسی دوران ترکمان گیس کو پہلے گوادر اور پھر بھارت لے جانے کا منصوبہ تھا اس میں ایشیائی ترقیاتی بنک کے 11.5ارب ڈالر سے گوادر کو سڑکوں اور ریلوے لائن کے ذریعے ترکمانستان کے ساتھ ملانا تھا ۔ 

چونکہ امریکا اور طالبان کے ساتھ معاہدہ نہ ہو سکا ،اس طرح 1996ء میں ہی ترکمان گیس پائپ لائن اور گوادر پورٹ کی تعمیرکامعاملہ موخر ہوگیا۔ بھارت کو امید تھی کہ وہ گوادر کی بندر گاہ استعمال کرکے افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک سے تجارت کرے گا ،اس کے علاوہ جاپان ‘ جنوبی کوریا اور یورپ کے بعض ممالک کابھی یہی ارادہ تھا مگر سب نا امید ہوگئے ۔

ا س کے بعد بھارت نے گوادر سے صرف 72کلو میٹر دور ساحل مکران پر چاہ بہار بند رگاہ میں دلچسپی لینا شروع کی اور آخر کار یہ بندر گاہ تعمیر ہوگئی ۔ پہلے مرحلے میںیہ بندر گاہ ایرانی بلوچستان کی ضروریات کے علاوہ وسطی ایران کی تمام تر ضروریات پوری کررہا ہے ۔

اب حال ہی میں گندم کے دو جہاز بھارت سے آ کر چاہ بہار لنگر انداز ہوئے اس میں سے کچھ گندم سڑکوں کے ذریعے افغانستان پہنچایا گیا جس پر افغان صدر نے یہ اعلان کیا کہ اب افغانستان کراچی بندر گاہ کا محتاج نہیں رہا، افغانستان کو متبادل راستہ مل گیا ہے ۔

چاہ بہار میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک خصوصاً جاپان اور جنوبی کوریا نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے ۔ جاپان بیس لاکھ ٹن پیداواری صلاحیت کا اسٹیل مل اور جنوبی کوریا پندرہ لاکھ ٹن کا اسٹیل مل لگا رہا ہے۔ اس طرح سے چاہ بہار جیسی چھوٹی سے جگہ پر پچاس ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہورہی ہے ۔

آنے والی دھائی میں چاہ بہار بند رعباس سے زیادہ اہم ترین گزر گاہ اور پورٹ بنے گا۔ دوسری جانب 2002ء میں گوادر پورٹ کی تعمیر شروع ہوئی اور2006ء میں مکمل بھی ہوگئی۔ مگرحکومت کی عدم دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ گوادر پورٹ کے تین برتھ فعال نہ ہوسکے ،وہاں نہ بجلی ہے ، نہ پانی ہے اور نہ ہی بندرگاہ کو سڑک کے ذریعے ملایا گیا ہے ۔

دونوں بندرگاہیں ،چاہ بہار اور گوادر ساحل مکران پر صرف 72کلو میٹر کے فاصلے واقع پر ہیں ۔ اگر حکومت کو گوادر پورٹ کی تعمیر اور ترقی میں دل چسپی نہیں ہے تو بین الاقوامی تجارتی ادارے بند رچاہ بہار کا استعمال کریں گی۔اندازہ ہے کہ ایران صرف چاہ بہار کی بندر گاہ سے سالانہ دس ارب ڈالر کمائے گا بندر عباس سے یہ آمدنی صرف چھ ارب ڈالر سالانہ تھی مگر ایران کو امید ہے کہ وہ بین الاقوامی تجارتی سہولیات فراہم کرنے پر سالانہ دس ارب ڈالر کماسکتا ہے ۔ 

پاکستان اس آمدنی سے اس وقت تک محروم رہے گا جب تک گوادر پورٹ مکمل اور فعال نہ ہوجائے۔ شاید حکمرانوں کو گوادر پورٹ کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ورنہ پندرہ سالوں بعد گوادر کی بندر گاہ پر صرف تین کرینوں کا اضافہ نہ ہوتا ۔ نہ یہاں پانی ‘ نہ بجلی اور نہ بنیادی ڈھانچہ ہے جو بند رگاہ چلانے کے لئے ضروری ہے ۔