|

وقتِ اشاعت :   December 9 – 2017

امریکی صدر ٹرمپ نے توقع کے مطابق یہ فیصلہ کر دیا کہ امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کر لیا ۔

یہ وقت کی بات ہے کہ امریکی سفارت خانہ کب یروشلم منتقل ہوگا تاہم امریکی صدر نے اصولی طورپر یہ تسلیم کر لیا ہے کہ یروشلم پر اسرائیلی قبضہ جائز ہے اور یروشلم اسرائیل کا دارالخلافہ ہے ۔ یہاں پر امریکی صدر نے فلسطینیوں کے حقو ق پامال کیے ۔ 

1967ء کی عرب ‘ اسرائیلی جنگ کے دوران اسرائیل نے فلسطین کے مزید علاقے ہتھیا لیے تھے اس میں مشرقی یروشلم بھی شامل تھا اسرائیل نے یروشلم پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ اس کو یہودی ریاست میں شامل کردیا ۔ اب وہاں سے عرب آبادی کو بے دخل کرنے کی کوشش جاری ہے ۔ امریکی صدر کے اس فیصلے کی دنیا بھرمیں مخالفت ہورہی ہے ۔ 

پور ایورپ، تمام مسلمان ممالک ‘ اقوام متحدہ اور خصوصاً عرب ممالک میں ناراضگی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے ۔ غزہ ‘ غرب اردن میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں ۔ امریکہ کی مذمت میں جلسے اور جلوس نکالے گئے ۔ ایران اور ترکی کے ساتھ دیگر مسلم ممالک نے نہ صرف اس کے خلاف احتجاج کیا بلکہ فیصلہ کی مذمت بھی کی ۔

پاکستان بھر میں غم و غصہ جاری ہے ، بعض شہروں میں امریکا کے خلاف مظاہرے ہوئے ۔مذہبی اور دوسری پارٹیوں نے امریکی صدر کے فیصلہ کے خلاف احتجاج کیا اور اس کی مذمت کی ۔آج ملک بھر میں احتجاج کی کال دی گئی ہے اور ملک بھر میں مظاہرے ہوں گے۔ 

ترکی اور ایران کا رویہ زیادہ سخت ہے ترکی نے دھمکی دی ہے کہ وہ اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرے گا۔ اسرائیل مخالف تنظیموں خصوصاً حزب اللہ اور حماس کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے ۔ 

حماس نے تیسری بار اسرائیل کے خلاف جدوجہد کا اعلان کیا ہے حماس اسرائیل کو بہ حیثیت یہودی ریاست تسلیم نہیں کرتا لہذا اس کی جدوجہد اسرائیل ریاست کے خلاف ہے ۔ حزب اللہ اسرائیل کے خلاف ابھی تک حالت جنگ میں ہے ۔ حزب اللہ کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور کسی بھی وقت حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ چھڑ سکتی ہے جو خطے کو لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔ 

امریکی صدر کا یہ فیصلہ موجودہ کشیدہ حالات میں ایک خطر ناک قدم ہے جس سے عالمی امن کو زیادہ خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔شام ‘ لیبیا اور عراق کے بعد ٹرمپ جنگ کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے اور اس کو ایران تک لے جانا چاہتے ہیں۔ یروشلم کے فیصلے سے قبل صدر ٹرمپ ایران کو خصوصی طورپر نشانہ بنانا چاہتے ہیں جو ایک خوفناک عمل ہوگا جس سے پورے خطے کا امن تباہ ہوجائے گا۔ 

صدر ٹرمپ بنیادی طورپر ایک تاجر اور دولت مند شخص ہیں وہ سیاست دان نہیں ہیں، ان کا سفارت کاری سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ۔ وہ ان سیاسی اور سفارتی مسائل کو بزنس کے انتظامی طریقوں سے دیکھتے ہیں اور ان کو اپنی دانست میں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،ان کے لئے سفارت کاری اور سیاست بزنس منیجمنٹ کا حصہ ہے اس لیے اس واحد فیصلے سے امریکا پوری دنیا سے الگ تھلگ ہوگیا ہے ۔ 

یورپ‘ اقوام متحدہ ‘ افریقہ اور ایشیائی ممالک نے امریکی صدر کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے ۔ یہ امریکی سفارت کاری کی زبردست ناکامی ہے اس سے امریکا کے خلاف زبردست نفرت بڑھے گی اور امریکا مزید الگ تھلگ ہوگا اس کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچے گا۔ 

بہر حال امریکی صدر ٹرمپ نے مسلمان ممالک کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے، اس نے مسلمانوں کے قبلہ اول کی بے حرمتی کی ہے اور اسرائیل کا حق قبلہ اول پر تسلیم کر لیا ہے جس کو مسلمان ممالک کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے ۔ اس امریکی فیصلے کا واضح مقصد حزب اللہ ‘ حماس اور ایران کو ٹارگٹ کرنا ہے ، جلد یا بدیر ایران کے خلا ف اسرائیلی کارروائی متوقع ہے۔ 

یہ ایک اشتعال انگیز شکل اختیار کرے گا جب امریکی حمایت کے ساتھ اسرائیل ایران کے خلاف فوجی کارروائی کرے گا۔ امریکی صدر کے اس احمقانہ فیصلے کے خلاف دنیا بھر کے مسلمان ‘ خصوصاً دینی جماعتیں اپنے شدید رد عمل کا اظہار کریں گے ۔ اس طرح سے دنیا بھر سے ڈیڑھ ارب مسلمان امریکی سفارت خانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی افواج پہ فدائی حملے ہوسکتے ہیں۔