|

وقتِ اشاعت :   December 20 – 2017

آئے دن ایران کی سیکورٹی افواج سو کے لگ بھگ پاکستانیوں کو تفتان سرحدی چوکی پر پاکستانی حکام کے حوالے کرتے ہیں۔ ان میں سے 99فیصد لوگوں کا تعلق وسطی پنجاب سے ہوتا ہے۔ یہ وہ ناکام تارکین وطن ہیں جو وزارت داخلہ کے حکام کو لاکھوں روپے رشوت دے کر ایجنٹوں کے ذریعے پنجاب سے ایرانی بلوچستان کا رخ کرتے ہیں۔

وہ بہتر مستقبل اور بہتر روزگار کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑتے ہیں اور ملکی سرحدوں سے بحفاظت نکلنے کے لیے بھاری رشوت دیتے ہیں اس کے عوض پاکستان کی سرزمین پرکوئی ان کو ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کرسکتا۔ پنجاب سے لے کر ایرانی سرحد تک مکمل سیکورٹی کے ساتھ ان کو پہنچایا جاتا ہے یہ سفریہ لوگ بسوں اور ٹرکوں میں کرتے ہیں۔ 

نوشکی اور تفتان کے درمیان درجن بھر چیک پوسٹ ہیں لیکن کوئی ان نامعلوم افراد سے نہیں پوچھتا کہ وہ کون ہیں کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جارہے ہیں اور کیا کرنے جارہے ہیں۔ اس کے برعکس عام عوام کو بہت زیادہ تنگ کیا جاتا ہے اس کا تلخ تجربہ راقم کو خودہوچکا ہے جب میں اپنے بچوں کے ساتھ ایران جارہا تھا۔ ہماری گاڑی کو درجن بھر چیک پوسٹوں پر روکا گیا حالانکہ ایک بوڑھا شخص اپنے چھوٹے بچوں اور بیٹی کے ساتھ سفر کررہا تھا۔ 

تاہم اپنی شناخت کروانے کے باوجود کہ میں دو اخباروں کا ایڈیٹر ہوں اور بچوں کے ساتھ ایران چھٹیاں منانے جارہا ہوں، سیکورٹی پر مامور سپاہیوں نے بدسلوکی کی اور جگہ جگہ پاسپورٹ کاپوچھا۔ ایک معروف اور بزرگ اخبار نویس کے ساتھ یہ ہوسکتا ہے تو پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیسے روزانہ سینکڑوں پنجابی زبان بولنے والے لوگ جو بلوچی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے ،وہ درجنوں چیک پوسٹوں کو پار کرلیتے ہیں ۔

ان بیرون ملک جانے والوں کو وی آئی پی کا درجہ حاصل ہوتا ہے کیونکہ ان میں سے جتنے بھی جب ایرانی سرحد پر گرفتار ہوکر واپس پاکستان کے حوالے کیے جاتے ہیں تو اعلیٰ حکام ان سے کوئی باز پرس نہیں کرتے اور ان کو بلوچستان لیویز کے حوالے کرتے ہیں جہاں غریب سپاہی اپنی جیب سے ان ستم ظریف لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں تاوقتیکہ وہ کوئٹہ میں عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔ 

ہونا تویہ چاہئے کہ جس پروٹوکول کے ساتھ ان کو ایرانی سرحد تک پہنچایا جاتا ہے اسی پروٹوکول کے ساتھ دوبارہ ان کوگھر تک پہنچایا جائے۔ ہم نے اکثر لوگوں کا انٹرویو کیا سب کے سب خوفزدہ تھے کیونکہ راز افشاء کرنے کی صورت میں ان سب کو جان سے مارنے کی دھمکی ملی ہوئی تھی۔ 

1980کی دہائی سے ترک وطن کا سلسلہ سرکاری طور پر شروع ہے۔ اس کا مقصدیہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار کے لیے بیرون ملک بھیجا جائے تاکہ حکومت پر لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے حوالے سے دباؤ کم ہوجائے ۔ اس کے علاوہ بیرونی زرمبادلہ کما کر پاکستان کے خزانے میں جمع کیا جائے۔

اس تمام سلسلے میں بنیادی عنصر کرپشن ہے جس میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز افسران ملوث ہیں جو اربوں روپے کمارہے ہیں۔ لوگوں کو باہر بھیجنے کاکاروبار زوروں پر ہے اور یہ دولت کمانے خصوصاً ناجائز دولت کمانے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ 

یہ تو ممکن ہی نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو اتنی طویل سفر میں نہ پکڑا جاسکے، ایسی سیکورٹی اور پروٹوکول صرف اعلیٰ ترین اور طاقتور ترین افسران کی وجہ سے ہوسکتی ہے کہ ان کو ہر چیک پوسٹ پر پذیرائی دی جاتی ہے۔