|

وقتِ اشاعت :   February 17 – 2018

گزشتہ چندماہ کے دوران ملکی سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں ، پہلے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نااہل قرار دیئے گئے پھر بلوچستان میں حکومتی تبدیلی آئی جہاں کے منتخب نمائندوں نے عدم اعتماد کی تحریک لائی۔

میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا خاص کر مسلم لیگ ن کی جانب سے ملک بھر میں جلسے منعقد کئے گئے جہاں نواز شریف کی نااہلی پر عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیا جس کا سلسلہ تا ہنوزجاری ہے۔

ایک طرف مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف اور ان کی فیملی پر چلنے والے کیسز کی سماعت بھی جاری ہے جس سے ماحول میں خاصی گرمی پائی جاتی ہے اور انہی سے متعلق خبریں شہ سرخیوں میں دکھائی دے رہی ہیں ۔

اس صورتحال کا بغور جائزہ لیاجائے تو ہمیں ایک طرح سے اداروں کے درمیان تصادم کی سی صورتحال نظر آرہی ہے موجودہ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی سمیت دیگر وزراء اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی تردید بارہا کرچکے ہیں مگر ان کے اپنے بیانات ، انٹرویوزوتقاریر اس ٹکراؤ کی تصدیق کررہے ہیں۔

نواز شریف سمیت تمام لیگی وزراء اس وقت کیسز کی دفاع میں لگے ہیں ۔یہ اُن کا بنیادی سیاسی حق ہے جسے کوئی سلب نہیں کرسکتا مگر اداروں پر تنقید سے جو تلخ ماحول پیدا ہونے کا خدشہ ہے شاید ملکی حالات اس کے متحمل نہ ہوں۔ موجودہ حالات میں سیاسی استحکام ،اداروں کے درمیان بہترین ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے اگر اسے خاطر میں نہ لایاگیا تو ملک میں انتشار اور بہت بڑا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

موجودہ حکومت جمہوریت کے تسلسل کے ساتھ ساتھ اداروں کا احترام کرتے ہوئے کیسز کے دفاع کاحق محفوظ رکھتی ہے۔ اس وقت پاکستان پر بیرونی دباؤ بڑھایاجارہا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے اپنی مرضی ومنشاء کے مطابق کام لینے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسری جانب الزام تراشی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

پاکستان کو کسی نہ کسی طرح سے امریکہ یہ باور کرارہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے پاکستان میں موجود ہیں جن کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کی جارہی بلکہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیاجارہا ہے جو حقائق کے بالکل برعکس ہے ۔

اگر دیکھاجائے تو حال ہی میں پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے سانحات رونما ہوئے اور ان حملوں میں ملوث لوگوں کے بارے میں شواہد بھی پاکستان نے دنیا کے سامنے رکھ دیئے مگر اس کے باوجود پاکستان کی قربانیوں کو یکسر فراموش کرکے افغانستان کی ابتر صورتحال کاساراملبہ پاکستان پر ڈالاجارہا ہے ۔

حالانکہ پوری دنیا کی فوج اس وقت افغانستان میں موجود ہے اس کے باوجود وہ خاطر خواہ اہداف حاصل نہیں کرسکی ۔اگر دیکھاجائے تو افغانستان میں اس وقت ایک مضبوط پارلیمنٹ موجود نہیں اور نہ ہی کوئی موثرسیاسی قیادت ہے جو افغانستان میں امن لانے کیلئے پالیسی مرتب کرے۔

پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن وخوشحالی سمیت خطے میں طاقت کے تواز ن کو برقرار رکھنے کیلئے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا ،ہے بدقسمتی سے اس کی نیک خواہشات کو کمزوری سے جوڑاجارہا ہے۔

اب یہ ذمہ داری ہماری حکومت کی بنتی ہے کہ وہ ملک کے اندر موجود سیاسی انتشار میں کمی سمیت اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی بجائے بیرونی سازشوں کو سمجھتے ہوئے ممکنہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔وقت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اندرونی انتشار وبیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ملک میں سیاسی استحکام کو یقینی بنایاجائے۔