|

وقتِ اشاعت :   June 25 – 2016

گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان کے عوام اس بات پر مسلسل احتجاج کررہے ہیں کہ ان کو بجلی کی سہولت فراہم نہیں کی گئی ۔ بلوچستان کے طول و عرض میں ٹرانسمیشن لائن موجود نہیں ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت نے اس پر کبھی توجہ دی کہ بلوچستان کو بھی پاکستان کا ہی حصہ سمجھ کر پاور ٹرانسمیشن لائن تعمیر کی جائے ۔ حکومت بہت بڑے بڑے دعوے کررہی ہے کہ گوادر نہ صرف پاکستان کی بلکہ پورے خطے کی قسمت بدل دے گی مگر وہاں بجلی فراہمی کا کوئی واضح منصوبہ عوام کے سامنے سیاہ و سفید کی صورت میں نہیں آیا ۔حکمران پروپیگنڈا تو کرتے رہے ہیں کہ ہم بجلی فراہم کریں گے مگر حکمرانوں کی بد نیتی اس بات سے ثابت ہوجاتی ہے کہ ایران سستے داموں بجلی فروخت کرنے کو تیار ہے یعنی ہماری لاگت سے بھی آدھی قیمت پر لیکن حکومت ہے کہ وہ ایران سے کسی بھی قیمت پر بجلی خریدنے کو تیار صرف اس لئے نہیں ہے کہ بلوچستان ترقی کرے گا۔ چاہ بہار سے ہماری سرحد تک ایران نے بجلی کی ٹرانسمیشن لائن پہنچائی ہے جبکہ تفتان کے سرحد پر گزشتہ تیس سالوں سے ہماری وفاقی حکومت پاور ٹرانسمیشن لائن تعمیر کرنے سے گریزاں ہے اور بہانے بنا کر اس کو تیس سال سے سرد خانے میں رکھا گیا ہے اور اخباری بیانات دئیے جارہے ہیں کہ ایران سے بجلی خریدی جائے گی اور وہ بھی لوگوں کو چھوٹی تسلی دینے کے لئے ۔بد نیتی کی اس سے بڑی مثال اور کہاں مل سکتی ہے کہ مکران میں بجلی ایران سے آتی ہے ایران میں لوڈشیڈنگ اور پاور بریک ڈاؤن کا کوئی تصور ہی نہیں ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں ایران کے کسی بھی حصے میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا یا لوڈشیڈنگ کی نوبت آئی مگر بلوچستان میں پہنچنے کے بعد اس کی زبردست لوڈشیڈنگ شروع ہوجاتی ہے غالباً کیسکو کا یہ رویہ ہے کہ اسلام آباد اور لاہور کے حکمرانوں کو لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے تو مکران کے دور دراز علاقوں کے بے نوا لوگ 24گھنٹے بجلی کی سہولت کیوں حاصل کریں انکو کیوں نہ اذیت دیں اور پاور سپلائی کو جان بوجھ بند کردیا جاتا ہے کیونکہ اسلام آباد میں خواجہ آصف کے گھر میں لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو مکران میں تو ہم زیادہ لوڈشیڈنگ کریں گے گوکہ بجلی موجود ہے ۔ دوسری جانب بلوچستان 2400میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے اور صوبے کے عوام کو صرف 600میگا واٹ بجلی دستیاب ہے بلوچستان کی بجلی کی ضروریات کا اندازہ 1600میگاواٹ لگایا گیا ہے چونکہ ٹرانمیشن لائن صرف 600میگا واٹ کا لوڈاٹھا سکتی ہے اس لئے ساری بجلی سندھ اور پنجاب کو فروخت کردی جاتی ہے ایسی صورت حال میں بلوچستان میں مزید پاور ہاؤس بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ گوادر میں تین سو میگا واٹ بجلی صرف بندر گاہ کے استعمال تک محدود رہے گی اور اس سے مکران بھر کے لوگوں کو بجلی فراہم نہیں ہو سکے گی کیونکہ پاور ٹرانسمیشن لائن ہی موجود نہیں ہے اس کی زیادہ ذمہ دار وفاقی حکومت ہے کیونکہ وہ بلوچستان کو پاکستان کا حصہ ہی نہیں سمجھتی ہے اور نہ ہی قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو ان معاملات میں کوئی دلچسپی ہے۔ صوبائی اسمبلی کے اراکین کی تمام تر دلچسپی ایم پی اے اسکیم اور ایم پی اے فنڈ تک محدود ہے اور آئے دن اسمبلی کے فلور پر پی ایس ڈی پی زیر بحث رہتی ہے۔ اس لئے ہم نے یہ جائز مطالبہ کیا ہے کہ ایم پی اے اسکیم اور فنڈ بند کردیا جائے اور اراکین اسمبلی صرف قانون سازی کریں ،انتظامی اور معاشی معاملات خصوصاً معاشی منصوبہ بندی میں مداخلت نہ کریں۔ اسی طرح وزراء حضرات بھی اپنے مشورے اور زریں خیالات کا بینہ کے اجلاس یا اسمبلی کے اجلاس تک محدود رکھیں اور انتظامی معاملات کو انتظامی محکموں کے سیکرٹری صاحبان یا صرف چیف سیکرٹری پر چھوڑ دیں کہ وہ حکومت کے احکامات پر عمل درآمد کرائیں ۔