|

وقتِ اشاعت :   December 6 – 2016

ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں خطے کی تبدیلی ہوتی ہوئی منظر نامے کی ایک تصویری جھلک نظر آئی جس میں افغانستان کے صدر اشرف غنی، بھارتی وزیراعظم مودی کی گود میں واضح اور صاف طورپر بیٹھے نظر آئے ۔ اشرف غنی نے مودی اور بھارتی رہنماؤں کی من پسند باتیں کیں اور بھارت میں کافی داد بھی حاصل کی ۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے کہ پور اکا پورا فورم پاکستان کے خلاف بھرپور انداز میں استعمال ہوا ۔ پاکستانی وفد کو نہ گولڈن ٹمپل جانے دیا گیا اور نہ ہی ان کو پریس کانفرنس کرنے دی گئی ۔ یہاں تک کہ پاکستانی صحافیوں سے باتیں کرنے سے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو روک دیا گیا ۔ اس کے باوجود حکومت وقت عوامی رائے عامہ کو نظر انداز کیا اور افغان تارکین وطن کی واپسی کو پہلے تین ماہ کے لئے اور بعد میں مکمل ایک سال کے لئے موخر کردیا گیا ۔ وجہ شاید کابل کے حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پختون سیاسی علمائے کرام کے دباؤ کو بھی کم کرنا تھا۔ دونوں طرف یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو واپس افغانستان جلد بھیجا گیا تو افغانستان اور اس کی حکومت بھارت کے گود میں چلی جائے گی ۔ اگر پاکستان افغان غیر قانونی تارکین کو واپس نہ بھیجے تو افغانستان بھارت کو چھوڑ کر پاکستان کے ساتھ اتحاد کرلے گا۔ وہاں اشرف غنی نے یہ تک کہہ دیا کہ اپنے پچاس کروڑ ڈالر پاکستان اپنے پاس رکھے، افغانستان کو امداد نہ دے اور اس رقم کو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے استعمال کرے ۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے طنز کے ساتھ رقم لینے سے انکار کیا اور ساتھ یہ الزام بھی لگایا کہ اگر پاکستان افغان طالبان کی امداد نہ کرے، ان کو اپنی سرزمین پر پناہ نہ دے تو افغان طالبان ایک ماہ میں شکست کھاجائیں گے۔ اب افغانستان کا موقف بالکل واضح ہوگیا ہے اور وہ کسی صورت میں پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنے پر راضی نظر نہیں آتا۔ اب پختون علمائے کرام اور مذہبی و سیاسی رہنماؤں پر یہ فرض ہے کہ افغانستان پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال کرائیں۔ کم سے کم وہ پاکستان کے خلاف وسیع تر اتحاد کا حصہ نہ بنے اور بھارت کا ساتھ دینا چھوڑ دے ۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی کمانڈر نے بھی کم و بیش ایسے ہی خیالات کااظہار کیا تھا اور پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کے الزامات لگائے ۔یہ تمام الزامات سنگین نوعیت کے ہیں اس سے ان ممالک کی پالیسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے گرد حصار تنگ کرتے نظر آرہے ہیں۔ بھارت نے تو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چائیے جومودی کی طرف پاکستان پر فوجی حملہ کرنے کا اعلان معلوم ہوتا ہے ۔ پورا بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیمیں جو بھارت افغانستان اور ایران کے خلاف سرگرم ہیں ان کانام لیا گیا ہے اور ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کے اعلامیہ میں ان سب کا تذکرہ ہے جس میں ایران کے خلاف سرگرم تنظیم جند اللہ کا بھی نام ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کانفرنس صرف اس لیے بلائی گئی تھی کہ اس کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے اور پاکستان کی حکومت کوہدف بنایا جائے ۔ اگر واقعی مودی نے یہ منصوبہ بنایا تھا اور اشرف غنی سے مل کر بنایا تھا تو یہ کسی حد تک کامیاب ہوگیا ہے پاکستان تنہائی کی راہ پر گامزن ہے۔