|

وقتِ اشاعت :   January 9 – 2017

سی پیک کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہوا جس میں صوبائی وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے بھی شرکت کی ان میں بعض فیصلوں کے علاوہ یہ بھی اعلان کیا کہ خضدار کو بھی صنعتی علاقہ بنایا جائیگا اور سی پیک یعنی چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا اہم حصہ ہوگا ابھی تک اس کی تفصیلات سے عوام الناس کو آگاہ نہیں کیا ہے صرف اتنا ہی اعلان کیا گیا ہے کہ خضدار کو ایک صنعتی مرکز بنایا جائیگا جہاں پر مختلف نوعیت کی صنعتیں قائم ہونگی لوگوں کو روزگار ملے گا اور علاقہ ترقی کریگا واضح رہے کہ 1980ء کی دہائی میں بھی خضدار کے بارے میں اسی قسم کا صوبائی حکومت نے کہا تھا کہ خضدار میں ایک محدود پیمانے پر صنعتی علاقہ قائم کیا جائیگا تین دہائیوں کے بعد صوبائی حکومت کا گزشتہ وعدہ وفا نہ ہوا اور نہ ہی اعلان پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی کوشش کی گئی خضدار ویسے ہی ایک غیر ترقی یافتہ آبادی کے طور پر قائم ہے جہاں پر بنیادی سہولیات نہیں ہیں وزیراعظم پاکستان جب کوئٹہ کے دورے پر ہمیشہ چند گھنٹوں کیلئے آئے تھے اس دوران ہمارے دو بڑے بلوچ سرداروں نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ خضدار کو ایل پی جی پلانٹ کے ذریعے گیس کی سہولت فراہم کی جائے وزیراعظم نے یہ درخواست قبول کی لیکن ہم نے ان کالموں میں اس کی مخالفت کی تھی اور یہ مطالبہ کیا تھاکہ سوئی گیس کی لائن کوئٹہ سے خضدار تعمیر کی جائے اور خطے کے تمام علاقوں اور لوگوں بشمول خضدار کے قرب وجوار وڈھ اور نال کو بھی سوئی گیس پہنچائی جائے جب بھارتی پنجاب کی سرحد نارووال جو احسن اقبال وزیر منصوبہ بندی کا گاؤں ہے وہاں پہنچائی گئی تو بلوچستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر خضدار کا یہ پہلا حق بنتا ہے کہ اس کو بھی سوئی گیس پائپ لائن کے ذریعے پہنچائی جائے اس پر جتنی لاگت آئے وہ وفاقی حکومت بلا کسی بہانہ ادا کرے تاکہ خضدار اور گردونواح میں ترقی کا عمل تیز کرے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ روزگار کے ذرائع حاصل ہوں۔ ہمیں نہیں معلوم خضدار کو صنعتی شہرب بنانے میں بنیادی سرمایہ کاری کون کرے گا اس میں بجلی کا نظام خصوصاً بجلی کی 24گھنٹے فراہمی، فراہمی آب، سڑکوں کا جال اور بنیادی ڈھانچے کی مکمل تعمیرکون کریگا ہمیں نہیں معلوم چین کی حکومت یا نجی ادارے سی پیک کے حوالے یہاں کتنی سرمایہ کاری کریں گے یا بنیادی ڈھانچہ وفاقی حکومت تعمیر کریگی اور چینی یہاں آکر پنجاب کے طرز پر سرمایہ کاری کریں گے ابھی تک تمام باتیں واضح نہیں ہیں حکومت کا فرض ہے کہ ان تمام باتوں کی جلد سے جلد وضاحت کرے تاکہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر عوام کا مستقل دباؤ برقرار رکھا جائے کہ یہ تمام عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر جلد سے جلد عمل کیا جائے پہلے تو یہ بتایا جائے کہ سی پیک میں زبردست دلچسپی کے باعث خضدار کی صنعتی ترقی میں چین کا حصہ کیا ہوگا چینی حصہ امداد کی صورت میں ہوگا یا گرانٹ کی صورت میں جس سے چین کی بلوچستان میں ترقی میں دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکے گا صوبائی حکومت صنعتی ترقی میں کردار مشکوک نظر آتا ہے 30سال قبل خضدار میں صنعتی علاقے کی تعمیر کی بات کی گئی تھی مگر آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا کیونکہ بلوچستان کی حکومت طویل مدت کی منصوبہ بندی پر یقین نہیں رکھتی بلکہ سالانہ ترقیاتی پروگرام جس میں زیادہ حصہ اراکین صوبائی اسمبلی اور وزراء کو جاتا ہے بلکہ اس سالانہ ترقیاتی پروگرام میں ہفتہ وار نہیں ماہانہ تبدیلیاں کی جاتی ہیں لہٰذا بلوچستان کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس میں عوام الناس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہوگا اس لئے زیادہ دلچسپی اور توجہ چین اور وفاقی حکومت کی طرف ہوگا کہ یہ دونوں بلوچستان کی تیز رفتار ترقی میں کتنا بڑا کردار ادا کرتے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوجائیگی کہ سی پیک پنجاب کی ترقی کا منصوبہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ترقی کا منصوبہ ہے جس میں بلوچستان بھی شامل ہے۔