|

وقتِ اشاعت :   October 5 – 2017

گزشتہ دنوں پاکستانی فوج کے سربراہ نے کابل کا ایک روزہ دورہ کیا جہاں انہوں نے افغان صدر سے ملاقات کی اور دو طرفہ امور اور خطے کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔

پاکستانی مسلح افواج کے سربراہ نے خطے کے امن خصوصاً افغانستان سے تعلقات کو زیادہ اہمیت دی اور بذات خود مذاکرات کا آغاز کیا ۔

ابھی تک عوام الناس کو ان ملاقاتوں اور فیصلوں سے آگاہ نہیں کیا گیا تاہم ایک بات واضح ہے کہ حکومت پاکستان کسی بھی طرح سے افغانستان میں بھارت کا کوئی کردار قبول نہیں کرے گا۔ امریکا اور اس کے اتحادی بضد ہیں کہ افغان خانہ جنگی کے خاتمے میں بھارت کا ایک موثر کردار ہونا چائیے ۔

بھارتی وزیر داخلہ نے بر ملا اعلان کیا کہ بھارت اپنی مسلح افواج افغانستان روانہ نہیں کرے گا۔ جبکہ افغانستان کی معاشی ترقی اور بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کے لئے امریکا بھارت پر دباؤ بڑھا رہا ہے ، بھارت معاشی منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کرکے اپنے تعلقات کو مضبوط تر بنا رہا ہے لیکن افغان سیکورٹی کے حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے کو تیا رنظر نہیں آتا۔ 

پاکستان کی حکومت اور اس کے اہلکار آئے دن پر یہ ثبوت پیش کرتے رہتے ہیں کہ بھارت افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے لیکن بنیادی معاملہ تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہے جبکہ افغانستان کسی بات پر آمادہ نظر نہیں آتا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان سے تعاون کرے ۔

پاکستانی فوج کے سربراہ کے دورے کے ایک دن بعد افغانستان کی جانب سے پاکستانی فوجی پوسٹ پر فائرنگ ہوئی جس سے ایک فوجی جان بحق ہوگیا ۔ یہ واقعہ راجگال سیکٹر میں پیش آیا، اس واقعہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ افغانستان امن کے قیام کا خواہاں نہیں ۔

خصوصاً موجودہ حالات میں جب سے امریکا نے اپنی افغان پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کے بعد پاکستان پر مزیددباؤ بڑھا دیا گیا ہے بلکہ پاکستان کے خلاف افغانستان اور بھارت پر مشتمل محاذ بھی قائم کیا گیا ہے جس کی پشت پناہی امریکا پوری قوت کے ساتھ کررہا ہے۔ 

شاید یہی وجوہات ہیں کہ افغانستان پاکستان سے تعاون پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ، نہ ہی اس کی دلچسپی ہے کہ وہ بارڈر منیجمنٹ میں تعاون کرے ۔لہذا حکومت پاکستان مجبوراً یک طرفہ طورپر اقدامات کررہا ہے جس میں سرحد پر باڑ لگانا ‘ سرحدی چوکیوں کو مستحکم کرنا اور سرحدی علاقوں میں گشت کو بڑھانا شامل ہے ۔

حالیہ کور کمانڈر کانفرنس میں انہی باتوں اور مسائل کا جائزہ لینا مقصود تھا۔ آرمی چیف اپنے دورے کی رپورٹ اور اس کے نتائج کانفرنس میں رکھے اور اس پر بحث ہوئی ۔

سرکاری طوپر عوام کو اس کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا، سیکورٹی وجوہات کی بناء پر بعض باتیں معلوم نہیں ہو سکیں ، وہ کمانڈروں تک محدود رہیں گی تاہم عوام کو یہ توقع ہے کہ اس میں ملک کے عظیم تر مفاد میں فیصلے لیے گئے ہیں جس کو عوام الناس کی مکمل حمایت حاصل ہو گی ۔

تاہم حکومت پاکستان کو اپنی تمام تر کوششیں جاری رکھنی ہوں گی تاکہ پورے خطے میں امن اور سکون بحال رہے اور وسیع تر جنگ کے خطرات سے بچا جاسکے ۔

سرحدی امور اور بارڈر منیجمنٹ کے علاوہ حکومت پاکستان کو دو طرفہ تعلقات میں بہتری کی طرف بھی توجہ دینی چائیے اس بات سے درگزر کرنا چائیے کہ موجودہ صورت حال میں افغانستان کا رویہ تبدیل ہورہا ہے یا نہیں ۔

اگرچہ افغانستان پاکستان کے خلاف زیادہ سخت رویہ اختیار کررہا ہے جو ایک خوش آئند عمل نہیں بلکہ اس رویے سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور سرحدیں غیر محفوظ رہیں گی اور آخر کار دہشت گرد ہی اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔