|

وقتِ اشاعت :   November 2 – 2017

گزشتہ دنوں مسلم لیگ کے اہم ترین رہنماؤں کا ایک اجلاس لندن میں ہوا جس میں وزیر اعظم خاقان عباسی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف بھی شریک تھے معتبر ذرائع کے مطابق یہ دونوں شخصیات خصوصی طورپر لندن کے اجلاس میں شریک ہوئے اور اس تجویز کے ساتھ کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ سے بر طرفی کے بعد مسلم لیگ کی صدارت بھی چھوڑ دیں ۔

دوسرے الفاظ میں سیاست سے مکمل طورپر علیحدگی اختیار کر لیں۔ وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ نواز شریف نے توقع کے مطابق ان کی تجویز کو رد کردیا اور ساتھ یہ اعلان کردیا کہ وہ جلد وطن لوٹیں گے اور مقدمات کا سامنا کریں گے ۔اپنے خلاف زیادتی پر احتجاج بھی کریں گے ۔ ادھر اعلیٰ عدالت نے ان کو نوٹس جاری کیے ہیں کہ اپنے خلاف مقدمہ میں جواب داخل کریں ۔ 

ان کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی گئی ہے کہ وزیراعظم کے عہدے پر نا اہلی کے بعد وہ مسلم لیگ کی صدارت نہیں کر سکتے ۔ درخواست کی سماعت اگلے چندروز میں متوقع ہے۔ پہلے نواز شریف یا ان کے وکلاء کی ٹیم عدالت میں جواب داخل کرے گی اور اس کے بعد مقدمے کی کارروائی شروع ہو گی ۔

لندن کی ملاقات میں فیصلہ ہوا کہ نواز شریف اپنی ہی حکومت کے خلاف مزاحمت کریں گے ،وہ جلسے کریں گے ، جلوس کی قیادت کریں گے اور لوگوں کو باور کرائیں گے کہ وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا کر ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ۔ دوسری جانب ان کے خلاف 3ریفرنسز دائر کیے گئے ہیں۔

احتساب عدالت نے نواز شریف کو ان تینوں مقدمات میں ملزم نامزد کردیا ہے نیب نے تمام ثبوت عدالت میں پیش کردئیے ہیں اس تمام کارروائی کو سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج دیکھ رہے ہیں ۔ اغلب گمان یہی ہے کہ نواز شریف کو ان تینو ں مقدمات میں سزا ہو سکتی ہے ۔بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلا ف مقدمات ثابت ہو چکے ہیں۔

ان کو بد دیانت ثابت ہونے پر نا اہل قرار دیا جا چکا ہے اور وزیراعظم کے عہدے سے ان کی بر طرفی ہوچکی ہے ان کے پاس قانونی طورپر کوئی جواز نہیں ہے ۔ اب احتساب عدالت نے صرف ان کو سزائیں سنانی ہیں اس میں کتنی دیر لگتی ہے یہ معلوم نہیں ‘ لیکن اندازہ ہے کہ سپریم کورٹ کی مقررہ کردہ مدت میں یہ فیصلہ آجائے گا۔

ان مقدمات میں تاخیری حربے استعمال نہیں ہوسکیں گے۔ اب نواز شریف کی قسمت میں جیل ہے اقتدار نہیں۔ بلکہ ان کی سیاسی زندگی کا خاتمہ نظر آتا ہے اب ان کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ جیل میں رہیں گے یا وطن کو خیر باد کہیں گے ، یہ انہی پر منحصر ہے ۔

اشارے واضح ہیں کہ وہ وطن واپس آرہے ہیں اورانہوں نے مفاہمت کے تمام دروازے بند کردئیے ہیں ۔اب وہ اپنی ہی حکومت کے خلاف مزاحمت کریں گے جس کا نتیجہ صرف یہ نکل سکتاہے کہ مسلم لیگ کی حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا اور ان کے مخالفین حکومت پر کسی نہ کسی طرح قابض ہوجائیں گے۔ 

تاہم نواز شریف کو عوام کی نہیں خواص کی حمایت حاصل ہے اوروہ اتنی قلیل تعدا د میں ہیں کہ وہ ان کو دوبارہ وزیراعظم بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ اس لیے ان کی سیاست کا خاتمہ قریب ہے وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے شہنشاہوں کی طرح حکمرانی کی، اپنے آپ کو تاجر اور صنعت کار ثابت کیا سیاستدان نہیں کیونکہ سیاستدان عوامی رائے کا احترام کرتا ہے ،ہم خیالوں کی ٹیم بناتا ہے اورفیصلے مشاورت سے کرتا ہے جن میں عوامی مفاد ہوتا ہے صرف من پسند لوگوں کو نہیں نوازا جاتا ۔

اس طرح اپنے سیاسی مخالفین کو کمزور کرتاہے جبکہ اسکے برعکس موصوف پارٹی کے لوگوں کے ساتھ مشاورت پسندنہیں کرتے تھے حتیٰ وہ اپنے وزراء کی کوئی بات نہیں سنتے تھے بلکہ انکی بے عزتی کرتے تھے۔ اسی رویے کی وجہ سے ممتاز بھٹو‘ لیاقت جتوئی اور دوسرے سیاستدان ان کو چھوڑ گئے ۔ وہ سیاست میں تنہا رہ گئے ہیں اور تنہا شخص مزاحمت نہیں کر سکتا۔