|

وقتِ اشاعت :   October 2 – 2013

noordinجنیوا( این این آئی ) اقوام متحدہ میں بلوچ نمائندہ میر نورالدین مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کے بگڑتے ہوئے صورتحال دنیا کے لئے لحمہ فکریہ ہونا چائیے کیونکہ اس بحران کی لہر کے اثرات وسیع تر خطے اور دنیا کے مستقبل کے لئے نقصان دہ ہوگا ایک آزاد اور سیکولر بلوچستان خطے میں امن و استحکام کو قائم کرنے میں مدد دے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 24 ویں سیشن کے دوران جنیوا میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر طارق فتح اور ورلڈ سندھی کانگریس کے چیرمین لکھو لوہانا بھی موجود تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے حالات کے سنگینی کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ بلوچ قوم مسلسل ظلم و جبر کا شکار ہے اور کہا کہ بلوچ قوم کو ہر وقت دبایا گیا اور اْن پر مظالم ڈھائے گئے لیکن آج بلوچ قوم جس ازیت و تکلیف سے گزر رہا ہے اس سے پہلے کھبی بھی اس نوعیت کے تکلیف سے نہیں گزرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے روز اوَل سے بلوچ قومی جدوجہد کو دبانے کی ناکام کوشش کی ہے اور جارحانہ انداز میں بلوچستان کے سرزمین اور اْسکے قدرتی وسائل کو غضب کیا ہے اسی طرح بلوچ قوم نے بھی روز اوَل سے اپنے سرزمین پر ناجائز قبضہ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2005 میں شروع کی گئی فوجی آپریشن نے بلوچ قوم کے لئے بے شمار مصائب پیدا کئے ہیں پاکستانی فوج کے آپریشن کے نتیجے میں ہزاروں بلوچ شہید کئے گئے ہیں اور بڑے پیمانے پر لوگ نقل مکانی کرگئے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فورسز نے گھروں ، اسکولوں ، کالجوں ، مقامی کاروباری اداروں اور زرعی زمینوں کو مکمل طور پر تباہ کیا ہے اور ڈیرہ بگٹی و کوہلو میں لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیاں بلوچستان میں عام اور روز کا معمول ہے انہوں نے اس حوالے سے ایمنٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کمشن پاکستان کے رپورٹس کا بھی حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی فوج اور اْسکے انٹیلیجینس ایجنسیوں نے سیاسی کارکنوں طالب علموں، اساتزہ، صحافیوں، ڈاکٹروں، وکلاء4 ، دانشور، اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو جبری گمشدگی اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے جبکہ کئی کو حراست کے دوران قتل کیا گیا ہے اور اْنکے لاشوں کو پھینکا دیا گیا ہے۔ پاکستان بلوچوں میں سیاسی شعور و آگاہی کو پھیلنے سے روکنے کے لئے پوری کوشش کررہی ہے۔ سیاسی شعور و علم رکھنے والے لوگ بلوچ قوم کے ریڑھ کی ہڈی کی حیثت رکھتے ہیں اور پاکستان نے اس کو کمزور اور ختم کرنے کے لئے ہر ممکن طریقہ اپنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2010 سے اب تک 800 سے زائد بلوچوں کے لاپتہ کرنے کے بعد اْنکے مسخ شدہ لاشیں پھینکے گئے ہیں جھنیں سنگین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس وجہ سے کئی بار اْن کی شناخت کرنا بہت مشکل یا ناممکن ہوتا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے ڈیلی توار کے نمائندے اور بی این ایم کے کارکن عبدالرزاق بلوچ کا زکر کیا جنکا حال ہی میں بْری طرح مسخ شدہ لاش کراچی میں پھینکا گیا جو کہ چار ماہ تک لاپتہ رہا انہوں نے کہا کہ عبدالرزاق بلوچ کو تشدد کرکے قتل کیا گیا اور اْن کے لاش اتنی بْری طرح مسخ کیا گیا تھا کہ اْنکے لواحقین کو شناخت کرنے میں 24 گھنٹے سے زیادہ وقت لگا اسی طرح کئی لاپتہ افراد کو تشدد کرکے جلایا جاتا ہے اْنکے جسم کو ڈریل کیا جاتا ہے اور اْنکی آنکھیں اور ناخن نکال دی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف پاکستان اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار ظاہرکرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسری جانب عید کے موقع پر بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں پھینک کر اْنکے جیبوں میں بلوچ قوم کے لئے تحفے کا نوٹ ڈال کر اس علمبرداری کا مظاہرہ کرتا ہے انہوں نے کہا کہ گوادر بندرگاہ کا معاملہ بلوچوں کے لئے انتہائی اہم ہے اور اس موجود تنازعہ کا بنیادی حصہ ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان گودار میں پنجابی و مہاجروں کو آباد کرکے ایک سوچے سمجھے منصوبے اور سازش کے تحت بلوچوں کو اْنکے سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے اور انھیں مزید پسماندگی کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین نے بھی پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملاکر بلوچوں کی حالت زار میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور جلتی پر تیل ڈالا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے اس طرح کے منصوبے کے آغاز سے پہلے بلوچ قومی مفاد کو خاطر میں نہیں لائی اور بلوچوں کو اعتماد میں نہیں لیا بلکہ اس کے بجائے اْس نے سرزمین کے حقیقی مالک کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا بلوچستان کے وسائل کی غیر قانونی بْروکرز پنجاب اور اْسکے سول ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست اشتراک کرکے بلوچستان کے ساحل وسائل کو غضب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین زمہ داری سے کام لیں اور بلوچستان کے لوگوں کے تحفظات کا خیال رکھیں۔ انہوں نے آئی پی آئی گیس پائپ لائن منصوبے کے مذمت کی اور کہا کہ یہ پائپ لائن بلوچستان کے عوام کی خواہشات کے خلاف ہے اور اس گیس پائپ لائن کے آڑ میں پاکستان بلوچ سرزمین پر مزید فوجی چھاونیوں کی جال بچھا دے گی اور فوجی نقل و حرکت میں اضافہ کرے گی۔