|

وقتِ اشاعت :   June 11 – 2018

آج روزنامہ آزادی کے 18سال پورے ہونے پر یقیناًمسرت کا اظہار کیاجارہا ہے ،مگر روزنامہ آزادی کے اس طویل سفر اور عوامی مقبولیت کا سہرا لالا صدیق بلوچ کے سر جاتا ہے۔ 

لالہ صدیق بلوچ ایک عہد ساز تاریخ کا نام ہے جنہوں نے طالب علمی کے زمانے سے ہی مظلوموں کیلئے آواز بلند کی، 70ء کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا حصہ بنیں اور اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا ان دنوں نیشنل عوامی پارٹی اپنے عروج پر تھی جس میں بلوچستان کے اہم سیاسی شخصیات میرغوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ خان مینگل، نواب خیربخش مری شامل تھے ۔ 

لالا صدیق بلوچ نے بی ایس او کا پہلا منشور بھی لکھا ، 72ء کی دہائی میں گورنر بلوچستان میرغوث بخش بزنجو کے پریس سیکریٹری بھی رہ چکے تھے ،نیپ کی حکومت کے خاتمے کے بعد نیپ کی لیڈر شپ کے ساتھ لالا صدیق بلوچ بھی پابند سلاسل ہوئے رہائی کے بعد لالا صدیق بلوچ ذاتی طور پر سیاست سے الگ ہوئے مگر ان کے خاندان کے افرادنے ہمیشہ میرغوث بخش بزنجو کا ساتھ دیا اور اسی کی جماعت کو کراچی میں ووٹ دیا یہ ایک قربت دونوں شخصیات میں تھی اور دونوں شخصیات کے درمیان ایک خاندانی رشتہ جیسا تھا۔ 

بہرحال انہوں نے سیاست کو خیر باد کرکے پھر صحافتی زندگی سے وابستہ ہوئے کیونکہ وہ پہلے سے ہی انگریزی صحافت میں ملک کے مشہور ڈیلی ڈان سے وابستہ تھے۔ ڈان نیوز سے جب ریٹائرڈ ہوئے تو انہوں نے 1988ء میں کراچی سے ایک انگریزی اخبارسندھ ایکسپریس کی اشاعت شروع کی مگر کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ انہوں نے اپنے دوست ناصر بروہی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے سندھ ایکسپریس سے اپنا تعلق ختم کردیا ۔ 

90ء کی دہائی میں انہوں نے کوئٹہ سے ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کی اشاعت شروع کردی جس کے دس سال بعد انہوں نے روزنامہ آزادی کی بنیاد رکھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کے باوجود کیونکر روزنامہ آزادی کی اشاعت کو ضروری سمجھا ۔

اس کی اہم وجہ ہمارے یہاں انگریزی ریڈرنہ ہونے کے برابرتھی کیونکہ لالہ صدیق بلوچ نے جس طرح اپنی سیاسی زندگی میں بلوچ اور بلوچستان کے حقوق کیلئے جدوجہد کی اسی طرح انہوں نے اپنے اخبار کے ذریعے بلوچستان کا مقدمہ لڑا۔ 

بلوچستان کے بنیادی سیاسی، معاشی، سماجی مسائل سے عوام کو آگاہ کر نا ضروری تھا جو اردو اخبار کی اشاعت سے ہی ممکن تھا اس لئے انہوں نے روزنامہ آزادی کی بنیاد رکھی اور اس طرح لالا صدیق بلوچ نے اپنے قلم کے ذریعے بلوچستان کے اہم ایشوز کوروزنامہ آزادی کے ذریعے اجاگر کیا۔

روزنامہ آزادی میں خصوصی رپورٹ، خبروں اور اداریہ کے ذریعے انہوں نے بلوچستان کے مسائل اور ان کے حل کیلئے تجاویز پر مبنی تحاریر لکھے جس کی وجہ سے عوامی حلقوں میں روزنامہ آزادی کو زبردست پذیرائی ملی ۔

مگر بدقسمتی یہ رہی کہ حکمرانوں نے لالا صدیق بلوچ کی صحافتی دیانتداری کو اپنے خلاف ایک محاذ سمجھا اور اس کی سزا ان کے اخبارات کو اشتہارات کی بندش کے طور پر دی تاکہ لالا صدیق بلوچ کو مجبور کیاجاسکے کہ وہ بلوچستان کے اہم سیاسی، معاشی اور سماجی حالات پر نہ لکھیں جس شخص نے ٹارچر سیل میں اذیت کاٹ کر وعدہ معاف گواہ بننے سے انکار کیا اسے کس طرح مالی مشکلات میں مبتلا کرکے اس کے افکار اور نظریات سے دور کیاجاسکتا تھا حکمرانوں کے یہ حربے بھی ناکام ہوئے بلکہ لالاصدیق بلوچ نے کسی طرح کا بھی سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا اور وہ مزید لکھتے رہے ۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے یہاں حکمران مسائل کو سمجھنے کی بجائے اسے سازش سے جوڑتے ہیں اور خاص ایک افسر شاہی کا ٹولہ جو بلوچستان کے حکمرانوں کو ہمیشہ اکساتے رہتے ہیں کہ یہ جناب آپ کی کرسی کے پیچھے لگ گئے ہیں۔

اس لئے ان کی زبان بند کرنے کیلئے آسان طریقہ اشتہارات کی بندش ہے جب مالی طورپر ادارے کو کمزور کیاجائے گا تو اس سے ادارہ مجبور ہوکر اپنی رائے بدل دے گا، لالا صدیق بلوچ کے ایک قریبی دوست جو بی ایس او کے دوران ان کے ساتھ سیاست میں پیش پیش رہے۔

جب انہوں نے گورنر بلوچستان کا منصب سنبھالا تو لالا صدیق بلوچ نے حسب روایات اسی طرح اپنے تحاریر لکھے دوست کو ناگوار گزرا اور انہوں نے لالا صدیق بلوچ کو گورنر ہاؤس مدعو کیا تاکہ وہ اپنی ناراضگی سے آگاہ کرسکیں نتیجہ یہ نکلا کہ سابق گورنر بلوچستان اور لالا صدیق بلوچ کے درمیان حالات مزید کشیدہ ہوگئے ۔

کیونکہ لالا صدیق بلوچ نے بلوچستان کا مقدمہ لڑنے کا بیڑا اٹھارکھا تھا اس جدوجہد سے کیسے دستبردار ہوتے پھر گورنر صاحب کے احکامات پر روزنامہ آزادی کے اشتہارات پر بندش لگادی گئی جوکہ وقتی ثابت ہوا گورنر صاحب کی مدت تو ختم ہوئی مگر لالا صدیق بلوچ اپنے نظریات پر کاربند رہتے ہوئے روزنامہ آزادی کے پلیٹ فارم کے ذریعے لکھتے رہے۔

لالا صدیق بلوچ کے سامنے بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں ظلم زیادتیاں اولین ترجیح رکھتی تھی اب اس ظالمانہ رویہ میں کوئی بھی شریک ہوتا تووہ اپنے قلم کے ذریعے کسی بھی رشتہ کو خاطر میں نہ لاتے اور حق وسچ لکھتے ۔

انہوں نے روزنامہ آزادی کے ذریعے گیس رائلٹی، گوادر میگا منصوبہ، ریکوڈک، سیندک سمیت دیگر اہم منصوبوں کے متعلق لکھا جس سے وفاق بھرپور استفادہ حاصل کررہی تھی جبکہ بلوچستان میں بیٹھے حکمران اور افسران اپنا حصہ بٹوررہے تھے یہاں تک کے ریکوڈک پر بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی اس پرانہوں نے بھرپور انداز میں لکھا کہ کس طرح کروڑوں روپے کرپٹ افسران بریف کیس میں لیتے رہے ۔

اسی طرح انہوں نے بندرعباس کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی تحریر میں لکھا کہ آج ایران بندر عباس پورٹ کے ذریعے صرف راہداری کے عوض کروڑوں ڈالر آمدن ایران کو دے رہی ہے جبکہ گوادر کو سینٹرل ایشیاء کے ممالک کے ساتھ منسلک کرکے سڑکوں کا جال اور ریلوے ٹریک بچھائی جائے تو گوادر راہداری کے عوض سالانہ ایک ارب ڈالر قومی خزانہ کو فائدہ پہنچاسکتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اس جانب حکمرانوں کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ 

گڈانی شپ بریکنگ یارڈ سے آج بھی اربوں روپے وفاق کمارہی ہے مگر وہاں مزدوروں کیلئے کوئی سیفٹی کا نظام موجود نہیں آئے روز مزدور کام دوران موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں جس کیلئے کوئی انتظام تک نہیں صرف منافع ہی کمایا جارہا ہے بدقسمتی سے ڈسٹرکٹ لسبیلہ میں آج بھی کوئی ایک ایسا ہسپتال سرکاری سطح پر تعمیر نہیں کیا گیا جس سے وہاں کے عوام کو صحت کی سہولیات میسر ہوسکے یہ زیادتی نہیں تو کیا ہے ۔

اس پر بھی جب لکھا گیا کہ اربوں روپے کمانے والے ڈسٹرکٹ کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا تو اسے بھی سازش قرار دیاگیایہ صرف ایک ڈسٹرکٹ نہیں بلکہ بلوچستان میں آج بھی تعلیم، صحت جیسے بنیادی سہولیات موجود نہیں روزنامہ آزادی کی ترجیحات میں یہی مسائل شامل ہیں ۔

ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ آج لسبیلہ سے وہی لیڈر شپ جو مرکز کی جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے بغاوت کا آغاز کردیا ہے ہماری دعا ہے کہ جو عرصہ دراز سے ہم لکھتے آئے ہیں اب ان زیادتیوں کو بند کردینا چاہئے اور بلوچستان کو اس کے ہی وسائل پر اختیارات دیئے جائیں جو یہاں کی سیاسی وعوامی حلقوں کا اول روز سے مطالبہ رہا ہے۔

روزنامہ آزادی نے 18 سالوں کے دوران بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے اس کی وجہ صرف اور صرف بلوچستان کی لوٹ کھسوٹ پر لالا صدیق بلوچ کی قلم تھی مگر نڈر بہادر شخص نے تمام مشکلات کا بھرپور مقابلہ کیا اور مضبوط اعصاب کے ساتھ اپنی جنگ جاری رکھی جس شخص نے کینسر جیسے مرض کو شکست دی اس کیلئے مالی مشکلات اور اخبار کی بندش کا منصوبہ چہ معنی داردیہی وجہ ہے کہ آج بھی بلوچستان کا ذکر آتا ہے تو لالا صدیق بلوچ کا ذکر ضرور کیاجاتا ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آج بھی بڑے میڈیاہاؤسز میں جب بلوچستان کے متعلق پروگرامز کئے جاتے ہیں تو معروف اینکرز لالا صدیق بلوچ کی تحریر کا حوالہ دیتے ہیں ۔

روزنامہ آزادی جو آج بلوچستان کے عوام کیلئے رائے عامہ بن چکی ہے اس کا کریڈٹ لالا صدیق بلوچ کے سر جاتا ہے جنہوں نے روزنامہ آزادی کو منافع بخش اخبار کی بجائے بلوچستان کے عوام کی خدمت کیلئے وقف کرکے رکھ دیا ہے جو بلوچستان کے عوام کی حقیقی معنوں میں ترجمانی کرتا ہے ۔ 

لالا صدیق بلوچ چاہتے تو اپنے دونوں اخبارات کے ذریعے جائیدادسمیت دیگر کاروبار بھی شروع کرسکتے تھے مگر انہوں نے صرف جائز حق مانگا آج تک ان پر کوئی بھی کرپشن کا داغ تک نہیں ہے جنہوں نے ساری زندگی ایماندارانہ صحافت کی اور اپنے اخبارات کے اشتہارات کیلئے کوئی مارکیٹنگ ٹیم نہیں رکھی بلکہ انفرادی طور پر حکمرانوں اورافسران کے ساتھ وہ جائز حق کیلئے لڑتے رہے اور اس بات کو بھی دلیل منطق کے ساتھ باور کرایا کہ روزنامہ آزادی میں لکھی گئی تحاریر ذاتی عناد وبغض پر مبنی نہیں بلکہ ان کے ساتھ موجود تجاویز پر عمل کرکے بلوچستان کو مسائل سے نکالا جاسکتا ہے۔ 

آج خود حکمران اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ سی پیک سمیت دیگر میگا منصوبوں کے نام پر صرف ایک صوبہ کو ترقی دی گئی جبکہ بلوچستان کو دیوار کے ساتھ لگایاگیا جو لالا صدیق بلوچ کے لکھے گئے تحریروں کی ترجمانی کررہے ہیں۔ 

لالا صدیق بلوچ کی رحلت کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ اب ڈیلی بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی کا معیار وہی رہے گا یقیناًلالا صدیق بلوچ اپنے اندر ہی ایک انسٹیٹیوٹ ہونے کے ساتھ ایک اعلیٰ پایہ کے دانشور اور صحافی تھے ۔

ان کا خلاء آج بھی کوئی پُر نہیں کرسکتا مگر روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس اپنا معیار برقرار رکھنے کیلئے پوری جدوجہد کررہی ہے، لالا صدیق بلوچ کے صاحبزادے عارف بلوچ، آصف بلوچ، طارق بلوچ، ظفر بلوچ، صادق بلوچ ان کے بھانجے شہزاد بلوچ، حسیب الرحمن، لالا صدیق بلوچ کے پوتے بیبرگ بلوچ سمیت روزنامہ آزادی اور ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کی ٹیم بشمول لالا صدیق بلوچ کے شاگرد بھی اپنی دن رات محنت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور لالا صدیق بلوچ کے افکار کے ساتھ قلم کی اس جدوجہد کو آگے بڑھارہے ہیں۔

روزنامہ آزادی کے 18 سال پورے ہونے پرہم عہد کریں کہ لالا صدیق بلوچ کے فکر کو مشعل راہ بناکر بلوچستان کا مقدمہ اپنے قلم کے ذریعے لڑتے رہینگے جو صدیق بلوچ کی خواہش اورمقصدتھا۔