|

وقتِ اشاعت :   June 28 – 2018

تربت: 2018کے عام انتخابات میں ڈسٹرکٹ کیچ کے چاروں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر1ووٹ کو8بنانے کی شعبدہ بازی اورپس پردہ بٹھانے اوربھگانے کی ریاضت جاری ہے۔

حلقہ پی بی 45کی نشست پربی این پی بمقابلہ باپ ،اورحلقہ پی بی 46عوامی بمقابلہ این پی وبی این پی وجمعیت ،جبکہ حلقہ پی بی 47 ایساحلقہ ہے جہاں بی این پی کے امیدوارمیجرجمیل دشتی کی پوزیشن باپ کے امیدوارمیررؤف رِندکو بدھ کے روزبلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے نااہل قراردینے کے بعدمزیدواضح ہوگئی ہے ،جبکہ حلقہ پی بی 48پربی این پی کے حمل بلوچ ، بی این پی عوامی کے اصغررِنداورباپ کے اکبرآسکانی مدمقابل ہوں گے۔

اگر2013کی روایت دہرائی گئی اوراصغررِندکوباپ کی حمایت پرمجبوریابی این پی عوامی کے لئے بَلی دینی پڑگئی تواس کاسب سے زیادہ فائدہ حمل بلوچ کوہوگا،ناصرآباداورتمپ کے کئی علاقے بی این پی کوووٹ کرینگے ،جبکہ کیچ کی قومی اسمبلی کی نشست پر باپ کی امیدوارکے لئے ماحول کو’’سازگار‘‘بنایاجارہاہے ،اگر سرسیداحسان شاہ باپ کی امیدوارکے حق میں دست بردارہوگئے تواس کاسب سے زیادہ فائدہ بی این پی کوہوگا۔

عوامی رائے آج 2013سے بہت مختلف ہے ،قومی اسمبلی کی نشست پراب کی بارایک مختلف قسم کی رائے ہموارہوچکی ہے ، جان محمددشتی کی جانب سے تاریخی فیصلے کے بعدبلوچ علمی وحقیقی قوم دوست حلقوں میں اس فیصلے کوبلوچ مفادات کے تحفظ کے لئے ’’درست اورثمرآوراقدام‘‘قراردیاگیاہے اورکیچ کے ووٹرزجان محمددشتی کوقبل ازانتخابات کامیاب قراردے رہے ہیں،اب دیکھناہے کہ 25جولائی سے قبل انتخابی منظرنامہ علم ودانش کی پزیرائی کوسراہتاہے یاپوشیدہ اقدام کے سامنے سرتسلیم خم کرتاہے ۔