|

وقتِ اشاعت :   September 26 – 2018

اسلام آباد: لسبیلہ گوادر سے منتخب رکن قومی اسمبلی و سابق سپیکر محمد اسلم بھوتانی نے کہا ہے کہ حکومت پی ایس ڈی پی میں شامل بلوچستان کے منصوبے میں کٹوتی نہ کرے،سی پیک کی جان گوادر سٹی اور بندرگاہ جلد از جلد مکمل کی جائے۔

ایسا نظام متعارف کرایا جائے جس سے لسبیلہ میں واقع کارخانے و فیکٹریاں جو وفاق کو ٹیکس دیتی ہیں وہ سندھ کی بجائے بلوچستان کے حصے کا ٹیکس، کلیکشن میں شمار ہو اور اسی بنیاد پر این ایف سی ایوارڈ بلوچستان کو دیا جائے،ں ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی اور مالی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے لیکن حکومت کی بلوچستان کی پسماندگی اور باالخصوص سی پیک کے حوالے سے گوادر کی اہمیت کو مدنظر رکھے۔

وہ منگل کو قومی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے پیش کردہ فنانس ترمیمی بل پر جار ی بحث میں اظہار خیال کر رہے تھے۔اسلم بھوتانی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے مشکل مالی حالات کے تناظر میں ضمنی بجٹ پیش کیا اور ہمیں حکومت کی مکمل کی بہتری کیلئے مرتب کی جانے والی پالیسیوں کا احساس ہے اور ان کی حمایت کرتے ہیں، وزیر خزانہ اسد عمر ایک ماہر معاشیات ہیں،ہمیں ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی اور مالی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے لیکن حکومت کی بلوچستان کی پسماندگی اور باالخصوص سی پیک کے حوالے سے گوادر کی اہمیت کو مدنظر رکھے۔

حکومت نے منی بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی )میں225ارب روپے کی کٹوتی کی ہے،کیونکہ بلوچستان میں احساس محرومی ہے اور وہاں وسائل کی کمی ہے اسلئے حکومت پی ایس ڈی پی میں شامل بلوچستان کے منصوبے میں کٹوتی نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ گوادر سٹی سی پیک کی جان ہے،گوادر سٹی منصوبے کا 25ارب روپے کا مسٹر پلان2004میں بنا جس کو10سال میں مکمل ہونا تھا مگر14سال گزر گئے یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا۔بجٹ میں گوادر بندرگاہ کیلئے11سو ملین روپے مختص کئے گئے تھے حکومت سے درخواست ہے کہ اس پر کٹوتی نہ کی جائے اور اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کیا جائے کیونکہ گوادر بندرگاہ سی پیک کی جان ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔اسلم بھوتانی نے کہا کہ میرا خاندان گزشتہ42سال سے لسبیلہ اور حب سے منتخب ہو رہا ہے ، لسبیلہ اور حب کی عوام کے شکر گزار ہیں کہ وہ ہمیں منتخب کرتے ہیں،بلوچستان کی90فیصد انڈسٹری لسبیلہ اور حب میں ہے،مگر ان انڈسٹریز کے ہیڈ آفس کراچی میں ہیں۔

جو ہر سال اپنی محصولات وفاقی حکومت کو جمع کرواتے ہیں مگر یہ محصولات سندھ کی جانب سے جمع کروائی گئی محصولات میں ظاہر ہوتی ہیں جو کہ بلوچستان سے نا انصافی ہے،کوئی ایسا نظام متعارف کرایا جائے جس سے لسبیلہ میں واقع کارخانے و فیکٹریاں جو وفاق کو ٹیکس دیتی ہیں وہ بلوچستان کے حصے کا ٹیکس، کلیکشن میں شمار ہوا کرے اور ایوارڈ میں صوبے کا نمائندہ ہو اور اسی بنیاد پر این ایف سی ایوارڈ بلوچستان کو دیا جائے۔