|

وقتِ اشاعت :   December 4 – 2018

کوئٹہ : کوئٹہ کے علاقے کلی شیخان کی رہائشی طیبہ بلوچ نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ ماہ تیس نومبر کو ان کے بھائیوں جیئند بنگلزئی ،حسنین اور ان کے والد عبدالقیوم کو سادہ کپڑوں میں ملبوس افراداپنے ہمراہ لے گئے تھے ۔

جس کے بعد سے ان کا کوئی پتہ نہیں چل رہا عدلیہ مبینہ طو رپر لاپتہ ہونے والے میرے بھائیوں اور والد کو بازیاب کرائے گزشتہ روز کوئٹہ پریس کلب کے باہر قائم احتجاجی کیمپ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طیبہ بلوچ کا کہنا تھا کہ جیئند بلوچ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں سوشیالوجی اورحسنین بلوچ فرسٹ ایئر کا طالب علم ہیں جبکہ بروری روڈ سے مبینہ طو رپر لاپتہ ہونے والا امین بلوچ پری میڈیکل کے فرسٹ ایئر کا سٹوڈنٹ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم پر امن احتجاج کا سہارا لیتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے ہمارے پیاروں کو بازیاب کرکے ملکی آئین کے مطابق عدالتوں میں پیش کیا جائے اگر ان پر کوئی جرم ثابت ہوتا ہے تو انہیں سزائیں دی جائیں لیکن اعلیٰ حکام غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے مطالبے کو مسلسل نظر انداز کررہے ہیں ۔

گزشتہ ایک ماہ سے جاری احتجاجی کیمپ میں بیٹھے لوگوں سے وزیراعلیٰ سمیت کسی وزیر یا مشیر نے آکر ان کی داد رسی کرنے کی زحمت نہیں کی انہوں نے کہا کہ حکومتی اتحادی جماعت کی یقین دہانی کے باوجود بلوچوں کی مبینہ گمشدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔

جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اعلیٰ حکام اس اہم نوعیت کے مسئلے پر غیرذمہ داری اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں ہم آج کی پریس کانفرنس کے توسط سے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے ایک بار پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مبینہ طو رپر بلوچستان کے مختلف اضلاع سے لاپتہ ہونے والے بلوچوں کو منظر عام پر لاکر اپنی ذمہ داری ادا کریں اگر اس اہم نوعیت کے مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو احتجاج کو مزید وسعت دینے پرمجبور ہونگے۔