|

وقتِ اشاعت :   December 8 – 2018

کوئٹہ :  بلوچستان نیشنل پارٹی نے پی بی 47 کیچ میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے کمیٹی قائم کردی ۔کمیٹی انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں سے متعلق اپنی سفارشات پارٹی رہنماؤں کر پیش کریگی ۔ 

گزشتہ روز کوئٹہ پریس کلب میں بلوچستان اسمبلی میں بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی کا پارٹی کے مرکزی رہنماؤں نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی، موسیٰ بلوچ، ساجد ترین ، غلام نبی مری ودیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل ہونے والی مردم شماری کے نتائج کے تحت ہونے والی حلقہ بندیوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی کو حاصل ہونے والی عوامی پذیرائی اورمینڈیٹ سب کے سامنے عیاں ہے ۔ 

عام انتخابات میں کوئٹہ کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 265 اور صوبائی اسمبلی کی نشست پی بی 31 پر پارٹی کے امیدوار نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کی جیت کوہار میں تبدیل کیا گیا ۔

اسی طرح پنجگواور قلات کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر بی این پی کے امیدواروں نذیر بلوچ اور منظور بلوچ کی کامیابی کو شکست میں تبدیل کرنے والوں نے وڈھ اور مستونگ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی بی این پی اور پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تاہم عوامی دباؤ اور پارٹی کوملنے والی بھاری اکثریت سے وہ اپنے عزائم میں ناکام ہوئے ۔

2018ء کے عام انتخابات میں پارٹی کے مینڈیٹ کو چھینا نہیں جاتا تو اس وقت وفاق میں ہمارے کامیاب نمائندوں کی تعداد 8 جبکہ بلوچستان اسمبلی میں 15 ہوتی بلوچستان میں ہونے والے انتخابات پہلے سے ڈیزائن کئے گئے ہوتے ہیں جس کے تحت صوبے کے وزیراعلیٰ اور کابینہ کے اراکین کا چناؤ انتخابات سے قبل ہی کیا جاتا ہے ۔ 

جس کی واضح مثال بلوچستان میں نومولود جماعت کی حکومت ہے موجودہ حکومت میں شامل لوگوں کی اکثریت نے 2018ء کے انتخابات سے 6 ماہ قبل ن لیگ سے استعفیٰ دیکر بی اے پی کے نام سے نئی جماعت بنائی اور وہ جماعت جسے بنے 6 ماہ کا عرصہ بھی نہیں گزراتھا وہ بلوچستان کی اکثریتی جماعت بن گئی ہے ۔

نصیر شاہوانی کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ روز صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 47 کیچ میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے 56 پولنگ اسٹیشنز کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق بی این پی کے امیدوار جمیل بلوچ نے 5686 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ مد مقابل حکمران جماعت کے امیدوارنے 5122 ووٹ لیے تھے ۔ 

لیکن آج آنے والے نتائج کے مطابق حکمران جماعت کے امیدوار کو مند کے ان حساس پولنگ اسٹیشنز کے ہزاروں ووٹ ملے ہیں جہاں الیکشن کے روز4 بجے تک لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ ہونے والے اعلانات کے باجود ووٹ ڈالنے محض چار لوگ ہی نکلے تھے ۔ 

انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنز کے نتائج کے تحت حکمران جماعت کے امیدوار کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہونا معنی خیز ہے ۔ عام انتخابات کی طرح مستونگ اور وڈھ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی پارٹی کے مینڈیٹ کو چھیننے کی کوششیں کرنے والوں کو عوامی دباؤ اور بھاری اکثریت سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔

لالا رشید 2018ء کے انتخابات سے قبل بی این پی کا حصہ رہے ہیں عام انتخابات میں پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہ دیئے جانے پر انہوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیکر 2000ووٹ لیے تھے ۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں موجودہ شورش اور بے چینی اور بدامنی کی وجہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرنا ہے بلوچستان کے عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے بی این پی کا مینڈیٹ چھین کر ہمیں اس حدتک مجبور نہ کیا جائے کہ ہم سڑکوں پر نکلیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ بی این پی بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 26 پر ہونے والے انتخابات سے متعلق نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی ، ملک نصیر احمد شاہوانی ، موسیٰ بلوچ، ساجد ترین اور غلام نبی مری شامل ہیں ۔

جبکہ کیچ کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 47 پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات سے متعلق قائم کمیٹی میں رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ ،احمد نواز بلوچ، اختر حسین لانگو، اکبر مینگل ، حمید بلوچ شامل ہیں جو انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں سے متعلق اپنی سفارشات پارٹی رہنماؤں کو پیش کرینگے ۔

جس کے بعد پارٹی بے ضابطگیوں سے متعلق حکمت عملی وضع کرے گی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ساجد ترین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اس کا سیاسی حل تلاش کیا جائے ۔

ضمنی انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرکے ان قوتوں کے موقف کو تقویت دی گئی ہے جو پارلیمنٹ ،جمہوریت اور ووٹ کو بلوچستان کے مسئلہ کا حل نہیں سمجھتے ۔ بلوچستان کو کالونی کے طور پر جلایا جارہا ہے ۔ عام اور ضمنی انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں میں ملوث عناصر کو سزادی جائے ۔ 

وفاق میں اپنے چھ نکات کے بدلے صدر، وزیراعظم ، اسپیکر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے انتخابات میں بی این پی نے حکمران جماعت کو سپورٹ کیا تاہم حکومت کا حصہ نہیں بنے وفاقی حکومت کے افغان مہاجرین کو شہریت دینے سے معلق آنے والے بیان سمیت دیگر اہم مسائل پر بی این پی کا موقف واضح ہے۔ بلوچستان کے حقیقی نمائندوں کو دیوار سے لگانے کے بجائے ان کو راستہ دیا جائے ۔