|

وقتِ اشاعت :   January 16 – 2019

قلات:  حکومت اور صحت کے شعبے میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے کی طرف سے زچہ و بچہ کی شرح اموات کم کر نے کے دعوؤں کے باوجود زچہ و بچہ کی شرح اموات میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوا ہے ۔

قلات میں ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال 2دہی مراکز صحت 11بنیادی مرکز صحت اور 13 ڈسپینسریوں کے باوجود بھی محکمہ صحت دوران زچگی شرح اموات میں کمی نہیں لا سکی ذرائع سے معلوم ہو ا ہے کہ جو لیڈی ڈاکٹر لیڈی ہیلتھ وزیٹر مڈوائف فیمیل میڈیکل ٹیکنیشن دائی اسٹاف نرس کو دہی علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے ۔

وہ چند دنوں میں اپنا اسپیشل ڈیو ٹی پر قلات شہر میں کسی بیسک ہیلتھ یونٹ میں تبادلہ کرواتی ہیں اور یوں دہی علاقہ کا مرکز صحت میں مریضوں کے علاج کے لیئے ایک بھی لیڈی ڈاکٹر کام کر نے کے لیئے تیار نہیں ہو تا ہے اور دہی علاقوں میں تعینات خواتین اسٹاف ڈیوٹی بھی نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے زچگی کے دوران علاج معالجہ اور خصوصی نگداشت نہ ملنے کی وجہ سے خواتین زچگی کے دوران اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔

کیونکہ زچگی کے دوران ایک خاتون کو ٹیٹنس کی ویکسین لگائی جاتی ہیں جوکہ دہی علاقوں میں محکمہ صحت کے اہلکاروں کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے نہیں لگائی جاتی اس سے جھٹکوں کی بیماری ڈی بی ٹی کی بیماریا ں لگ جاتی ہیں اور زچگی کے دوران انیمک کلیم شیاء اور ائے کلیم شیا ء کی بیماریا ں حاملہ خاتون کو لگ جاتی ہیں جو مریضہ کے لیئے موت کا سبب بنتے ہیں ۔

اس کے علاوہ زچگی کے دوران مریضہ کو زیادہ مقدار میں متوازن کھانوں کی ضرورت ہوتی ہیں جو زچہ کو نہیں ملتی ہے اور اس کے نتیجے میں حاملہ خاتون خون کی کمی کا شکار ہو تی ہے اس حالت میں انہیں اگربہترعلاج فراہم نہ کی جائے تو اس کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔

دوسری جانب ڈیلوری کے دوران بعض اوقات بچے کی پوزیشن درست نہ ہونے کی وجہ سے ڈیلوری نہیں ہوتی ایسے میں مریض کو فوری طورپر کسی گائناکالوجسٹ کے پاس پہنچانا چاہئے مگر قلات کے دہی علاقوں میں گائناکالوجسٹ تو دور کی بات ہے ڈی ایچ کیو قلات میں بھی گائناکالوجسٹ تعینات نہیں کی گئی ہیں جو ایمرجنس میں کسی مریضہ کو آپریشن کرکے اس کی جان بچا سکیں ۔

قلات کے عوامی حلقوق کا کہنا ہے کہ زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی شرح میں اضافہ صحت کی سہولتوں کا نہ ہونا اور نان ٹیکنیکل اسٹاف کی وجہ سے ہوتی ہیں جس پر نہ صرف سابقہ حکومتوں نے توجہ نہیں دی ہے بلکہ تبدیلی حکومت نے بھی تا حال عوام کو صحت کی سہولتیں پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے حالانکہ انتخابات کے دوران حکومت میں شامل عوامی نمائیندوں نے صحت کے مسائل کے حل کے لیئے جو وعدے کیئے تھے وہ تاحال پورے نہیں کر سکے ۔

رکن قومی اسمبلی محترمہ ربینہ عرفان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ چالیس فیصد خواتین صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے زچگی کے دوران جانبحق ہو جاتے ہیں یہ موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی کار کردہ گی پر سوالیہ نشان ہیں ۔

محکمہ ہیلتھ کی نااہلی کی وجہ سے ڈاکٹرز اور دیگر اہلکار ہسپتالوں اور دیگر مراکز صحت میں کام نہیں کرتے حکومت قلات کے لوکل سرٹیفیکیٹ پر ڈاکٹر بنے والوں کو قلات شہر اور دہی علاقوں میں ڈیوٹی کرنے کا پابند کرے ۔

انہوں نے کہا کہ خواتین ویسے بھی کمزور ہوتے ہیں اگر انہیں صحت کی سہولتیں مہیا نہ کی جائے خصوصاََ زچگی کے دوران کی ان کی خصوصی دیکھ بھال اور علاج معالجہ نہیں کیا جائے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتے ۔

محکمہ صحت کے صوبائی کوارڈینیٹر ڈاکٹر بخت نصر کانسی کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین زچہ گی کے دوران بھی فوت ہو جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آج بھی بلوچستان میں دادی اماں کے وہ فرسودہ رسم و رواج کاربند ہیں جو حمل کے دوران خواتین کو ان کے کھانے سے روکا جاتا ہیں اور حاملہ خاتون کو گوشت پھل اور دیگر قوت بخش چیزیں نہیں دی جاتی ہیں جن کی انہیں اشد ضرورت ہو تی ہیں ۔

اس کے علاوہ ہم یہ مانتے ہیں کہ بلوچستان کے دہی علاقوں میں صحت کی سہولتیں نہ ہو نے کے برابر ہیں اور زچگی دوران پیش آنے والے پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیئے ہمارے پاس دہی علاقوں میں ٹرینڈ اسٹاف موجود نہیں ہو تی ہیں جس کی وجہ سے خواتین دوران حمل بہترین خوراک نہ ملنے اور مناسب دیکھ بھال نہ ملنے کی وجہ سے جانبحق ہو جاتے ہیں ۔

ڈی ایچ کیو قلات کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اقبال نورزائی کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کئی خواتین زچگی کے دوران موت کا شکار ہو تے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پورے ڈسڑکٹ کا واحد ہسپتال میں ایک بھی گائناکولوجسٹ نہیں ہے اور ڈیلوری کے دوران بعض اوقات بچے کی پوزیشن میں خرابی ہو تی ہیں۔

اس وقت زچہ کو فوری طور پر آپریشن کر کے بچہ کو ڈیلیور کرایا جاتا ہیں مگر یہ کام گائناکالوجسٹ کے بغیر دوسراڈاکٹر نہیں کر سکتا ہے اور گائناکالوجسٹ نہ ہو نے کی وجہ سے بعض اوقات زچہ موت کا شکار ہو جاتی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اور محکمہ صحت فوری طوری پر قلات میں ایک گائنا کالوجسٹ اور ایک انستھیزیا ڈاکٹر تعینات کرے قلات کا رہائشی عبدالقدوس ندیم جن کی اہلیہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں ڈیلوری کے دوران ڈاکٹروں کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئی کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچے کی ڈیلوری کے لیئے رات کو بارہ بجے اپنے اہلیہ کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتال پہنچائی تو ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں تھا بعد میں لیڈی ڈاکٹر کو ہسپتال میں واقع ان کے کوارٹر سے بلایا گیا ۔

تو لیڈی ڈاکٹر نے مریض کوبغیر دیکھے کہا کہ ابھی تک اس کا ٹائم پورا نہیں ہوا آپ اسے گھر لیجائے تو ہم مجبورََ مریض کو گھر لے گئے ہم جب گھر پہنچے تو مریضہ کی حالت غیر ہو گئی اور گھر ہی میں بچہ پیدا ہو گئی مگر ہماری مریضہ علاج نہ ہو نے کی وجہ سے بہت کمزور ہو گئی جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی صبح کو ہم نے مریضہ کو دوبارہ ہسپتال منتقل کیا مگر ہسپتال میں بروقت علاج معالجہ نہیں ہونے کی وجہ سے ان کی اہلیہ انتقال کرگئی ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری مریضہ کی اس لیڈی ڈاکٹر کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے انتقال ہو گئی ہے قلات کی سب تحصیل گزگ کے رہائشی گل محمد پندرانی کا کہنا ہے کہ ان کی بیوی کو بچے کی ڈیلوری کی وجہ سے تکلیف شروع ہوئی اور اس نے مقامی دائی کو گھر لے آیا مگر کئی گھنٹے گزرجانے کے باوجود بچہ پیدانہیں ہوا پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ مریض کو قلات منتقل کیا جائے اورہمارا علاقہ قلات شہر سے 160کلومیٹر دور ہے اور اس کا راستہ کچا اور دشوار گزار راستہ ہے اور قلات پہنچنے کے لیئے ہمیں کم سے کم آٹھ گھنٹے لگتے ہیں ۔

جب ہم مریض کو لیکر قلات ڈی ایچ کیو پہنچے تو ڈاکٹروں نے روایتی لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں بغیر کسی طبعی امداد کے ہمارے مریضہ کو کوئٹہ منتقل کر دیا اورکوئٹہ پہنچ نے سے قبل میری اہلیہ جاں بحق ہو گئی