|

وقتِ اشاعت :   February 15 – 2019

کوئٹہ: صوبائی وزراء اور اراکین اسمبلی نے کہا ہے کہ بلوچستان سے متعلق وفاق کی جانب سے کئے گئے کسی ایسے معاہدے کو قبول نہیں کریں گے جو ہمیں اعتماد میں لئے بغیر کیا جائے گا۔ گوادر اور پسنی میں سعودی عرب کی جانب سے قائم ہونے والی آئل ریفائنری معاہدے میں بلوچستان کے مفادات پرسمجھوتہ کریں گے نہ سی پیک ، ریکوڈک پر بلوچستان کے مفادات کا سودا کسی کو کرنے دیں گے۔

گزشتہ روز ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء اللہ بلوچ نے ایوان میں توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر جی ڈی اے سے دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر اور پسنی میں حکومت سعودی عرب کی جانب سے متوقع آئل ریفائنری کا قیام عمل میں لایا جائے گا نیز کیا صوبائی حکومت متوقع آئل ریفائنری منصوبے کی اہمیت ، طریق کار ، اراضی ، صوبے کے مالی ، تکنیکی ، روزگاراور ماحولیات کے مفادات کی بابت کون سے اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے اس کی تفصیل دی جائے ۔

انہوں نے کہا سعودی ولی عہد16فروری کو اسلام آباد تشریف لارہے ہیں اور ہمارے سننے میں آیا ہے کہ اس دوران 14معاہدوں اورمفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط کئے جائیں گے ایسی صورتحال میں بلوچستان اسمبلی سے صوبے کی معدنی دولت پر نظر رکھنے والوں کو یہ پیغام جانا چاہئے بلوچستان کے عوامی نمائندے اپنی معدنی دولت ، ساحل ووسائل اور سرزمین پر زیرک نگاہ رکھتے ہیں ان کی مرضی و منشاء کے بغیر کوئی بھی معاہدہ بلوچستان کے عوام کو قبول نہیں ہوگا یہ پیغام سعودی ولی عہد جو کل صبح ناشتے کی ٹیبل پر اخبار پڑھیں تو انہیں بھی مل جانا چائیے ۔ 

انہوں نے کہا کہ ایوان کو آگاہ کیا جائے کہ آئل ریفائنری کے لئے دی جانے والی اراضی لیز پر دی جارہی ہے یا پارٹنر شپ پر دی جارہی ہے اگر پارٹنر شپ کی بنیاد پر دی جارہی ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے کیونکہ اس سے صوبے کو سالانہ دو سے چار سو ارب روپے مل سکتے ہیں اگر مہمان نوازی کی بنیاد پر یہ زمین دی جارہی ہے تو ہمیں قبول نہیں کیونکہ ا س سے ہمیں کوئی مالی فائدہ نہیں ہوگا بلوچستان کے 18لاکھ نوجوانوں کی امیدیں ہم سے وابستہ ہیں انہیں ناامیدنہیں کرنا چاہئے ۔

جس پر صوبائی وزیر انجینئر زمرک اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان کے حقوق پرحکومت اور اپوزیشن میں شامل جماعتیں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گی نہ ہی سی پیک ، ریکوڈک پر بلوچستان کے مفادات کا سودا کسی کو کرنے دیں گے ہم نے وفاقی حکومت پر واضح کردیا ہے کہ گوادر ایئر پورٹ وہاں بننے والی سڑکیں،سکول ، ہسپتال وہاں کی ضرورت ہے اسے سی پیک سے نہ جوڑا جائے ۔ 

انہوں نے کہا کہ گوادر ، ریکوڈک ، سی پیک سمیت دیگر قدرتی اور معدنی وسائل کو بلوچستا ن کے عوام کے لئے بروئے کار لایا جائے گا ہمارا عہد ہے کہ وفاق سے جمہوری اور عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کے ذریعے صوبے کے عوام کو ان کے حقوق دلائیں گے اگر اس میں ناکام ہوئے تو حکومت کی پرواہ کئے بغیروفاقی حکومت کے سامنے بھرپور احتجاج کریں گے ہمارا موقف واضح ہے کہ ہم وفاق میں ہونے والے ایسے کسی معاہدے کو قبول نہیں کریں گے جو ہمیں اعتماد میں لئے بغیر کیا جائے گا۔ 

گوادر سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی حمل کلمتی نے کہا کہ 2008ء سے آج تک ہمیشہ ہم اس ایوان میں یہ مطالبہ کرتے ہوئے آئے ہیں کہ گوادر سے متعلق ہونے والے معاہدے کو اس ایوان میں پیش کیا جائے مگر افسوس کہ آج تک اس معاہدے کو ایوان میں پیش نہیں کیا جاسکا نہ ہی کسی معاہدے پر ہمیں اعتماد میں لیا گیا ہے گوادر کو ماتھے کا جھومر کہا جاتا ہے اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ گوادر کے بغیر سی پیک نامکمل ہے مگر وہاں کے لوگو ں پر کسی کی توجہ نہیں ۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی کے آج اخبارات میں شائع ہونے والے بیان کے مطابق گوادر سے متعلق ایک او رماسٹر پلان بنایا جارہا ہے سمجھ نہیں آتی کہ گوادر کے لئے کتنے ماسٹر پلان بنائے جائیں گے اس سے قبل بھی تین ماسٹر پلان بنائے جاچکے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سوئی اور ریکوڈک ختم ہونے والے منصوبے ہیں مگر گوادر نہ ختم ہونے والا منصوبہ ہے مگر افسوس کہ سی پیک منصوبے سے گوادر کے لوگوں کو فائدہ ملنے کی بجائے یہ منصوبہ عذاب بن چکا ہے آئے روز شاہراہیں بند کرکے لوگوں کو محصور کردیا جاتا ہے گوادر کی اس سرزمین کو کوڑیوں کے دام فروخت کیا جارہا ہے جس کے دفاع کے لئے ہمارے آباؤ اجداد نے پرتگیزیوں سے لڑائی لڑی ۔

انہوں نے کہا کہ آئل ریفائنری سے متعلق معاہدے کی تفصیلات ایوان میں لائی جائیں خدشہ ہے کہ سی پیک کی تکمیل پر وہاں کے لوگوں کو گوادر سے بے دخل کردیا جائے گا اور ہم پنجگور ،تربت اور دیگر اضلاع میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے ۔

انہوں نے گوادر اور پسنی میں زمینوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اب تک تین بار الاٹمنٹ کینسل ہوچکی ہے انہوں نے کہا کہ جب بلوچستا ن حکومت ہی گوادر کے لوگوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی تو وفاقی حکومت سے کیا گلہ کیا جاسکتا ہے ۔

ہم ترقی کے خلاف نہیں ہم ترقی چاہتے ہیں مگر خدا را اس ترقی میں ہمیں بھی شامل کیا جائے ۔جمعیت العلماء اسلام کے سید فضل آغا نے ثناء بلوچ اور حمل کلمتی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک معاہدوں سے متعلق بلوچستان کے لوگوں کے تحفظات دور کئے جائیں ہم ایک مضبوط پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبے سے مغربی روٹ کو نکالنااس بات کی عکاسی کرتاہے منصوبہ مکمل ہونے پر سی پیک کو شہداد کوٹ سے طورخم تک منسلک کیا جائے گا اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے انہوں نے کہا کہ گوادر میں ہونے والی ترقی پاکستان کی ترقی ہے سی پیک سے متعلق بلوچستان کے لوگو ں کو ان کا جائز حق ملنا چاہئے ۔

لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ اس ترقی میں ہمیں بھی ساتھ لے کر قدم آگئے بڑھائے جائیں ۔ وزیراعلیٰ کی مشیر بشریٰ رند نے کہا کہ گوادر سونے کی چڑیا ہے مگر بلوچستان کو ماضی میں پسماندہ رکھا گیا یہاں ترقی دیکھنے میں ہی نہیں آئی اب موجودہ حکومت اس حوالے سے مکمل سنجیدہ ہے حکومت بلوچ عوام کے ساتھ مل کر مسائل حل کرے گی ہم وفاق میں بھی بلوچستان کے حقوق پر کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے ۔

پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کا ایوان صوبے کا سب سے مقدس ایوان ہے جہاں منتخب نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں اس ایوان کو آئل ریفائنری سے متعلق معاہدے سے آگاہ کیا جائے ہمارا مطالبہ تھا کہ مغربی روٹ کو شامل کیا جائے مگر یہ صدا بصحرا ثابت ہوا ہے ۔

انہوں نے موجودہ حکومت کو شدید تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت کی معاشی پالیسی عوام دشمن پالیسی ہے رواں مالی سال کے بجٹ میں بلوچستان کے 22ارب روپے کے 17بڑے پراجیکٹس پر کٹ لگایا گیا ہے جو تشویشناک ہے ۔ 

عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ بظاہر ہمارے قوانین برابر ہیں مگر ہمارے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ تشویشناک ہے اس وقت عجیب سی صورتحال ہے تمام اراکین تحفظات کااظہار کررہے ہیں ۔

اس وقت اگر ہمارے پاس تھوڑے بہت وسائل ہیں تو اس کا کریڈٹ اس حکومت کو جاتا ہے جس نے 2008ء سے2013ء کے دوران این ایف سی ایوارڈ کو ممکن بنایا اور اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو خودمختار بنایا مگر جو تاریخی ظلم ہمارے ساتھ2013ء سے2018ء کے دوران ہوا اس کی مثال نہیں ملتی سابق وزیراعظم نے اپنی کچن کیبنٹ کے ہمراہ مسلسل غلط بیانی کی اور پوری حکومت کو پیچھے لگا کر وہ ژوب آئے پورے ملک اور پوری سیاسی قیادت کو دھوکہ دیا ۔

انہوں نے کہا کہ 2013ء سے2018ء کے دوران جو کچھ ہوتا رہا بلوچستا ن نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی اگر چاہیں تو اب وہ نہیں ہوگا مگر اس کے لئے دونوں پارٹیوں کے اراکین قومی اسمبلی کو وفاقی حکومت کے سامنے ایک واضح لکیر کھینچنی ہوگی کہ ہم بلوچستان کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور بلوچستان کو اہمیت و اولیت دیں گے ۔

اس موقع پر ثناء بلوچ نے توجہ دلاؤ نوٹس کو قرار داد میں تبدیل کرنے کی تجویز دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کے مجموعی مفادات کے تحفظ ، گوادر اور پسنی میں قائم ہونے والی آئل ریفائنری سمیت دیگر تمام معاہدوں سے متعلق بلوچستان کو اعتماد میں لیا جائے تاہم صوبائی وزیر سماجی بہبود اسد بلوچ نے ان کی تجویز سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم بلوچستان کے امین ہیں اور عوام نے ہمیں مینڈیٹ دے کر اس ایوان میں بھیجا ہے تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس قرار داد کو یہاں لانے کی بجائے قومی اسمبلی کے اس ایوان میں پیش کریں ۔

جہاں وزیراعظم اور متعلقہ وزراء موجود ہوتے ہیں بلوچستان نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے دس اراکین قومی اسمبلی اس قرار داد کو پاس کرائیں ان کا یہ عمل بلوچستان کے مفاد میں ہوگا اور اگر وفاقی حکومت قرار داد کی منظوری میں ساتھ نہیں دیتی تو مذکورہ اراکین قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کریں ایسے میں ان کا موقف ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیوں میں آئے گا۔

اس موقع پر صوبائی وزیر ریونیوسلیم کھوسہ نے ایوان کو آگاہ کیا کہ آئل ریفائنری سے متعلق بات ضرور ہوئی ہے مگر اس حوالے سے باقاعدہ طو ر پر تاحال نہ تو کوئی معاہدہ ہوا ہے اور نہ ہی الاٹمنٹ ہوئی ہے جب بھی اس حوالے سے معاہدہ ہوگا ہم یقین دلاتے ہیں کہ گوادر کے عوام کے مفادات کا اس میں مکمل طو رپر خیال رکھا جائے گا ۔