|

وقتِ اشاعت :   April 10 – 2020

برصغیر وپاک وہندمیں صوفی ازم کی جڑیں مضبوط ومربوط ہیں۔اسی کے توسط سے بھولی بھٹکی انسانیت کو راہ راست اور مہر ومحبت کے سلسلے کو برقراررکھتے ہوئے کڑی سے کڑی ملائی جاتی رہی ہے۔برصغیر پاک وہند میں صوفی شاعری کی ابتداء فارسی میں زیادہ پائی جاتی ہے، تاہم ہندی میں بھگت کبیر، سندھی میں شاہ لطیف بھٹائی ؒ اور سچل سر مست،پشتومیں رحمن بابا،پنجابی میں بابا بلھے شاہ، میاں محمد بخش اور سرائیکی میں خواجہ غلام فریدسمیت بلوچی میں مستیں توکلی اور جوانسال بگٹی کی صوفیانہ شاعری موجودہ انتہا پسندی کی سوچ کے خاتمے کے لئے پتھر پر لکیر کے مترداف ہے۔خاص کرمجھ نا چیز کا مشورہ اپنے آج کے نوجوان طبقہ کو ہے کہ وہ ان صوفیاء کرام کی شاعری کو پڑھیں،سمجھے اور عمل کرے تو نفرت کی دیواریں ختم اور محبت کے راستے خود بخودکھل جائیں گے۔

دوسری جانب ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ ان انسان دوست انسانوں کی شاعری کو نصاب میں شامل کرے تاکہ ہمارا طالب علم ماں کی گود میں محبت کی لوری کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی محبت کی زبان کو سیکھتے ہوئے آگے جا کے دنیا کو پھولوں کی سیج بناکر انتہا پسندی اور نفرت بغض سے پرے محبت کی مالا کو پیار کے پریت میں سموئے۔بجائے ظاہری دیکھا دیکھی کے عمل کی دنیا میں غوطہ زن ہو کر معاشرے کے لئے کارآمد اور اپنے کارواں کے لئے کامل بن جائے۔

اصل میں صوفی درویش جہد مسلسل، دیانت داری اپنے معمولات زندگی کو احسن طریقے سے نبھانے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ لمحات باطن کی دنیا میں رہنے کو بھی ترجیح دیتا ہے، وہ مذہبی اور اخلاقی حوالوں سے ایک خاص مقام رکھتا ہے، وہ کسی بھی قوم وملک سرحدسے پرے ہر قوم اور مذہب کی قدر کرتا ہے۔صوفی ظاہر اور باطن دونوں کو ترجیح دیتا ہے، وہ لفظ کے بجائے اس کے معانی پر توجہ دیتا ہے، وہ برے میں بھی اچھائی ڈھونڈتا ہے، صوفی نرمی اور محبت کو اپنا کر غلطیوں کو معاف کرتا ہے، اسی طرح صوفی خود نمائی، دیکھا دیکھی، ظاہری خوشنودی، مشہوری اور بہت زیادہ کو کم پیش کرکے عاجزی انکساری،ہر اچھے کام اور نیکی کو بغیر مشہوری کے کر گزرتا ہے۔

،ا س طرح وہ اپنے حقیقی عمل سے دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔صوفی عمل کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر اپنے اندرعلم وحکمت جذب کرتا ہے، صوفی اصل میں ایک مکمل انسان ہوتا ہے، اس میں والدین واستاد والی شفقت، نفسیات دانوں والی سمجھ اور سائنسدانوں والا تجربہ ومشاہدہ بھی پایا جاتا ہے۔ وہ حکمت کی نبض اور شعور کی آنکھ سے دلوں کے رازتک جاپہنچتا ہے،صوفی انسان میں چھپے اسراررموزاور خیالات کے سمندر میں غوطہ زن ہو کرفقیر اس منزل تک پہنچتا ہے جہاں انسان خود بھی واقف نہیں،تاہم فقیر اس کی تہہ تک جا پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی ہمیشہ بام عروج پر رہا ہے۔

یہ امر حقیقی ہے کہ ہزاروں سالوں سے ان کا چرچا چلتا آرہا ہے اور تاقیامت چلتا رہے گا۔صوفی درویش وہ کام کر گزرتے ہیں جو وقت کے بادشاہوں سے بھی نہیں ہو سکتے، ان کے ٹھکانے ہمیشہ ہر عام وخاص کے لئے کھلے رہتے ہیں جبکہ شاہی دربار خاص او خاص کے لئے ہوتے ہیں۔فقیر دلوں پرراج کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ، حاکم، عالم وفاضل صوفیوں کے دربار اپنی حاضری کو شرف سمجھتے ہیں۔یہ فقراء کا بام عروج ہے کہ ہزاروں نہیں لاکھوں انسان صبح وشام آستانہ درویشاں پر اپنی حاضری لگاتے ہیں،یہ ان کی وہ کشش ہے جو کسی حاکم اورعالم فاضل کے دربار نہیں ہوتی۔


صوفی احسان الہی اور خداوند کریم کے چھپے راز وں کی کھوج میں لگا رہتا ہے،(خلق الانسان علی صورتہ)انسان ”سر الہیٰ“ہے،وہ زمین پر اس کا عکس ہے، اس کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے اور اس کی عظمت وعزت خدا کی عظمت وعزت کے مترادف ہے۔ جیسا کہ ایک انسان کو یتیم کے پاؤں سے کانٹے نکالنے کے سبب مالک کائنات نے اسے سر سبزوشاداب پھولوں میں ہمیشہ رکھااور وہ تمام پھول اسی کانٹے سے نکالے گئے تھے۔جو یتیم کے پاؤں سے اس شخص نے نکالا تھا۔(کانٹے اور پھول کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے)۔اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مشہور زمانہ واقعہ ہے کہ آپ مہمان کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے،ایک دفعہ پورا ہفتہ گزرنے کے باوجود کوئی مہمان نہیں آیا۔پھر ایک مسافر ملا تو اللہ کا شکرادا کرتے ہوئے اسے کھانے پر لائے۔دوران کھانا مہمان نے بسم اللہ نہیں پڑھی۔حضرت ابراہیم نے دسترخواں لپیٹ لیا، مہمان بھوکا اٹھ گیا۔ توفوراً وحی (اللہ کا پیغام)آیا کہ اے ابراہیم میں نے اسے پیدا کیا اور سو سالوں سے روزی دے رہا ہوں اور تم اسے ایک وقت کا کھانا بھی نہ دے سکے۔

صوفی باطن کو دیکھتا ہے اور وہ اللہ کے یہی راز ڈھونڈنے کی کوشش کرکے حقیقی گہرائی تک جا پہنچتا ہے جو کہ ظاہری پہلووالے عالم وفاضل اس حقیقت کی بو تک محسوس نہیں کر سکتے۔دوسری جانب صوفی خداوندکریم کے قرب اور معرفت ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے، صوفی جب اپنے رب کو پہچان لیتا ہے تو پھر وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچ گیا ہے جہاں پر اسے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔اس وقت عارف یہ جان لیتا ہے کہ اس کائنات میں رب کریم ہی سب کچھ ہے، اس کا ہی ہرجگہ اور ہر چیز پر جلوہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر صوفی درویش توکلی ہوتا ہے، وہ توکل کو ترجیح دیتا ہے۔ ویسے بھی یہ بات زدعام ہے کہ ”توکل کے بیڑے پار“ ہوتے ہیں۔درویش کائنات کے مالک وخالق کے سوا کسی غیر پرارادہ نہیں رکھتے۔

صوفیوں کی برصغیرپاک وہند میں آمد سے جہاں جہاں ان کا اثر ورسوخ زیادہ رہا، وہاں وہاں آج بھی رواداری اورمحبت کو ترجیح دی جاتی ہے، انتہا پسندی اور نفرت سے پرے معاشروں میں تبدیلی خاص او خاص ان صوفیوں درویشوں کی مرہون منت ہے۔اللہ کے ان برگزیدہ بندوں میں حضرت لعل شہباز قلندر اپنے”قلندری رنگ“ میں سندھ وہند سمیت پوری دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں،قلندری سلسلے میں آپ کودست کمال حاصل ہے۔(قلندربن گئے عشق میں جلنے والے)آپ نے عشق کی انتہا کو چھوا،آتش عشق میں آپ بلا خوف وخطر کود پڑے۔آپ کے والد صاحب سید کبیر بھی ایک سچے عاشق تھے۔

اسی عشق خداوندی کے سبب ایک مدت تک شادی کا خیال بھی نہ رہا۔(عشق کی مصروفیت کسی کام کا ہونے نہیں دیتی)۔تاریخ کے مطابق کہ ایک رات خواب میں حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی روح پاک آئی اور اپنے والد سے کہا کہ آپ شادی کریں تاکہ میں دنیا میں آؤں تو آپؒ کے والد نے فرمایا کہ جنت میں مزہ نہیں آرہا۔حضرت لعل شہباز قلندرؒ نے فرمایا کہ میں دنیا میں آکر خدا کے بندوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔(یہ مقام ہے خلق خداکی خدمت کا، جنت بھی مزہ نہیں دیتی)چنانچہ اس کے بعد آپؒ کے والد محترم سید کبیرؒ نے نکاح کی خواہش ظاہر کی تو مروند کے حاکم سید سلطان شاہ نے اپنی بیٹی جو نہایت پاک دامن اور نیک صفت تھی، سید کبیرؒ کے نکاح میں دے دی۔ بعد میں ان کے بطن سے حضرت لعل شہباز قلندرؒ پیدا ہوئے۔آپ نے دینی تعلیم حاصل کی اور چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا۔آپ عشق الہیٰ میں مگن بھولے بھٹکے انسانوں کو راہ راست لانے کے لئے اپنے آبائی علاقے کو خیرآباد کرکے جدوجہد عشق کے سبب سفر رخت باندھا اور عشق الہیٰ میں محو سفر رہے۔جنگلوں، بیانوں، چٹیل میدانوں کو عبور کرتے رہے جہاں انسانی آبادی دیکھی وہاں قیام کیا۔اپنے علم اور عشق سے سرشار فلسفے کو لوگوں کو بتاتے اور انہیں عشق الہیٰ کی تبلیغ کرتے، اسی طرح آپ کی پیاس بجھتی رہتی۔آپ نے عشق کی مشکل ترین منزلیں طے کیں۔

عشق کے ہیں معجزات، تاج وسریر وسپاہ
عشق ہے میروں کا میر، عشق ہے شاہوں کا شاہ
علم فقہیہ وحکیم، عشق مسیح وکلیم
علم ہے جویائے راہ، عشق ہے دانائے راہ
عشق ہے مقام نظر، علم مقام خبر
عشق میں مستی ثواب، علم میں مستی گناہ
(علامہ اقبال)

آپؒ وسطی ایشیاء کے بالائی علاقوں سے ہوتے ہوئے زریں ہنداور سندھ کا رخ کیا۔ روایت میں ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندر بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں کچھ عرصہ قیام پذیر رہے ہیں۔آج بھی کوئٹہ کے علاقے کاسی روڈ پر”قلندر مکان“ کے نام سے آپ کا ٹھکانہ موجود ہے۔آج بھی وہاں عقیدت مند آپ سے مہر ومحبت کا اظہار کرنے آتے رہتے ہیں۔آپ قلندری سلسلے میں پایہ کے ولی کامل ہیں۔دوران سفر آپؒ نے بے شمار اولیاء کرام سے ملاقاتیں کیں اور بہت کے مزارات پر حاضری کا شرف حاصل کیااور ان سے روحانی فیض حاصل کیا۔حضرت لعل شہباز قلندرؒ اجمیر سے دہلی، پانی پت وہاں حضرت بوعلی شاہ قلندرؒ سے ملاقات کی۔ایک مدت تک وہاں پر حاضری دی۔اس کے بعد حضرت لعل شہباز ؒ سفر کرتے ہوئے سندھ کے شہر”سہون شریف“آئے اورپھر علم کی مزید پیاس بجھانے کی غرض سے ملتان چلے گئے، اس زمانے میں یہ سب علاقے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ملتان میں اس وقت کے جید اولیاء کرام سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان کی محبت میں رہے۔علم کے خزانے سمیٹے، بزرگوں سے ملاقات کا سلسلہ جاری رکھا۔

سندھ صوفی مزاج کی دھرتی نے ہمیشہ عظیم انسانوں کو اپنی گود میں ہی رکھاہے۔ انہیں کہیں اور نہ جانے دیا۔ صوفیا میں ہر ایک کی اپنی منزل ہوتی ہے کوئی کہاں تو کوئی کہاں تک پہنچ جاتا ہے۔ لہذا”قلندر بن گئے عشق میں جلنے والے“ تو لعل شہباز قلندر نے شریعت سے طریقت کی اعلیٰ منزلیں حاصل کرتے ہوئے عشق حقیقی میں ہر گھڑی جلتے کھڑتے رہے۔قلندر بے مثل،عارف بے بدل، صاحب طریقت،مقبول زمانہ، ہادی رہبر، حضرت لعل شہباز قلندرؒ نے ایک عرصے تک ”سہون شریف“میں رہ کر دین کی تبلیغ اور انسانیت کی خدمت کی اور ادھر ہی آپ کا وصال ہوا۔تاریخ بتاتی ہے کہ جب آپؒ کے وصال کا ٹائم آیا تو آپؒ نے اپنے چاہنوں والوں (مریدین) کو قلندری طریقت کے بارے میں ہدایات دیں اور اپنی تدفین کے بارے میں بھی بتایا۔

روایت ہے کہ غسل کے وقت ایک تہبند کھولا تو دوسرا بندھا ہوا تھا، دوسرے کے بعد تیسرا اسی طرح بہت سے تہبند کھلنے کے بعد آپؒ اٹھ کھڑے ہوئے اور آخرفرمایا کہ میں اللہ کاراز ہوں میرا راز نہیں کھلتا۔ اس کے بعد آپ زمین میں چلے گئے،جہاں آپ کی مزار ہے۔سندھ کے شہر”سہون شریف“ میں ہر شعبان کی 18 ویں سے لے کر 21 ویں تک عرس کی باقاعدہ تقریبات ہوتی ہیں، جشن قلندربڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ملک بھر سمیت دیگر ممالک سے بھی عقیدت مند حاضری دینے سہون شریف پہنچتے ہیں۔

مروند سے تعلق ہونے کے سبب افغانستان،وسطی ایشیاء اور خراسان کے باشندوں سے لے کر ایران سے بغداد تک لوگ آپ سے عقیدت مند ی رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب دربار قلندر میں بم دھماکہ ہوا تو اقوام متحدہ سمیت تقریباً تمام ممالک نے آپ سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اس کی بھرپور انداز میں مذمت کی۔مگر صد افسوس کہ امسال جو کہ کل رات عرس کی پہلی دھمال ہونی تھی، تاہم کورونا وائرس کے سبب اس تاریخی عرس کو ملتوی کر دیا گیا، جو کہ راقم الحروف کے ساتھ محو گفتگو تقریباً سالہ ایک بوڑھے شخص نے کہا کہ بیٹا میں اپنی اتنی عمر میں قلندر پاک کا عرس ملتوی ہوتے نہیں دیکھا۔تاہم قلندری سلسلے کے پیروکار اپنے اپنے تئیں شہنشاہ قلندر کی یاد میں عرس کی تقریبات منا کر اس مرد قلندر ”حضرت عثمان مروندی“کو نذرانہ عقیدت پیش کریں گے۔ mehmoodabro@gmail.com