|

وقتِ اشاعت :   July 17 – 2020

کورونا نے پوری دنیا کے نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیا۔انسانوں کے بنائے ہوئے مستقبل کے بڑے بڑے منصوبے ملیا میٹ ہو گئے۔انسانوں کو ایک نئی طرز زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔انسان اگرچہ پہلے بھی قلبی طور پر ایک دوسرے سے بہت دور ہو چکے تھے لیکن کورونا نے جسمانی طور پر بھی انسانوں کو ایک دوسرے سے دور رہنے پر مجبور کر دیا۔انسان کو معاشرتی حیوان اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے تعاون کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا،اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایسے جذبات اور احساسات پیدا کر رکھے ہیں جن کی تسکین دوسرے انسانوں کے بغیر ناممکن ہے۔

انسانوں کو ایک دوسرے کی قربت اور ملاقات سے جو حرارت اور توانائی ملتی تھی کورونا کے سبب انسان اس توانائی سے محروم ہو گئے،جس کے انسانی طبیعت پر ناگوار اثرات مرتب ہوئے،لوگ مایوسی،ناامیدی اور ڈپریشن کا شکار ہو گئے۔ڈپریشن اگرچہ نئی بیماری نہیں ہے پہلے بھی لوگ غربت و افلاس،جان و مال کے خوف اور زندگی کے مختلف مسائل کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوتے تھے لیکن ان دنوں ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ وبا کا خوف،تنہائی،بے روزگاری اور دن بدن انسانوں کا موت کو گلے لگانا ہے۔

خوف انسانی فطرت کا حصہ ہے لیکن خوف جب ذہن میں گھر کر جائے اور ذہن منفی خیالات کی آماجگاہ بن جائے تو ایسی حالت ڈپریشن کہلاتی ہے۔لوگ مختلف طریقوں سے خوف اور ڈپریشن کا شکار ہیں،کچھ لوگ وبا کے ڈر سے گھروں میں قید ہو کر ڈپریشن کا شکار ہو گئے،کچھ لوگ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مریضوں کی تعداد اور اموات کا سن کر ذہنی طور پر کورونا کا شکار ہو گئے،اور کچھ لوگ وہ ہیں جو واقعی کورونا جیسی وبا کا شکار ہونے کے بعد اپنے آپ کو آئیسولیٹ کر لیا وہ احباب وبا کے خوف اور تنہائی کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو گئے۔

خوف اور ڈپریشن کی وجہ حالات بھی ہوتے ہیں اور انسان کے اپنے خیالات بھی،جو شخص اپنے منفی خیالات پر کنٹرول نہیں کر پاتا وہ خود ہی اپنے اندر خوف پیدا کرنے کی وجہ بنتا ہے۔ایک مریض کے لیے ضروری ہے کہ اپنے خیالات پر کنٹرول کر کے مثبت پہلوؤں پر سوچنا شروع کر دے۔،ماضی کے خوشی کے لمحات کو یاد کر کے یا مستقبل میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو ذہن میں لا کر بھی خیالات کو بٹایا جا سکتا ہے۔ٹیکنالوجی کی مدد سیوقتی دوریاں ختم کی جا سکتی ہیں اور اپنے قریبی دوستوں سے رابطہ کر کے خیالات کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

ایک چیز ہمیشہ مریض کے اندر مایوسی پیدا کرتی ہے جب وہ صحتیاب لوگوں کو ہنستا مسکراتا دیکھتا ہے تو خیال آتا ہے کہ بیماری کا شکار صرف وہ ہی کیوں ہوا؟ اس سوچ اور ناامیدی کے خاتمے کے لیے حضور ﷺنے بہت ہی پیاری حدیث ارشاد فرمائی ہے:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی طرف دیکھو جو تم سے نیچے ہے اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہے یہ زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی اس نعمت کو حقیر نہ جانو جو تم پر ہے۔“ایک مریض کو چاہیے کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے اپنے سے بڑے مرض والے مریض کے بارے میں سوچے کہ کئی لوگ ہیں۔

جو کینسر کا شکار ہیں،بہت سے آئی سی یو میں ہیں اور بہت سے وینٹی لیٹر پر پڑے ہیں۔جب انسان اپنے سے بڑی آزمائش میں شکار لوگوں کو دیکھنا شروع ہو جائے تو انسان اللہ کی رضا پر راضی رہنے اور شکر بجا لانے کے قابل ہو جائے گا اور آزمائش پر صبر و برداشت کا حوصلہ بڑھ جائے گا۔ایک سچے مسلمان کے دل میں سب سے زیادہ خوف اللہ تعالیٰ کے غضب اور ناراضگی کا ہوتا ہے اور جس انسان کا موت اور آخرت پر پختہ یقین ہو تو یقیناً کسی بھی بیماری کا خوف اس کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتا۔جب انسان کی موت کا وقت پورا ہو تو کسی بھی صورت میں آ سکتی ہے اور کوئی بھی وجہ بن سکتی ہے۔