|

وقتِ اشاعت :   September 12 – 2020

گجرپورہ موٹروے پر خاتون سے زیادتی کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔اطلاعات کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جنگل سے خاتون سے لوٹی گئی طلائی انگوٹھی اور گھڑی مل گئی ہے۔ خاتون سے ڈکیتی کے بعد ڈاکو اسے کھائی میں لے گئے تھے، ڈاکوؤں نے خاتون سے ایک لاکھ نقدی اور زیورات لوٹے، انگوٹھی اور گھڑی ڈاکوؤں کے فرار کے دوران گرنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
تفتیشی اہلکاروں کو دن کی روشنی میں لوٹی ہوئی اشیاء ملیں جنہیں فنگر پرنٹ تجزیے کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ9 ستمبر کو لاہور کے علاقے گجر پورہ میں موٹر وے پر خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کا واقعہ پیش آیاتھاجہاں 2 افراد نے موٹر وے پر کھڑی گاڑی کا شیشہ توڑ کر خاتون اور اس کے بچوں کو نکالا، موٹر وے کے گرد لگی جالی کاٹ کر سب کو قریبی جھاڑیوں میں لے گئے اور پھر خاتون کو بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا۔
ایف آئی آر کے مطابق گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی خاتون رات کو تقریباً ڈیڑھ بجے اپنی کار میں اپنے دو بچوں کے ہمراہ لاہور سے گوجرانوالہ واپس جا رہی تھی کہ رنگ روڈ پر گجر پورہ کے نزدیک اسکی کار کا پیٹرول ختم ہو گیا۔کار کا پٹرول ختم ہونے کے باعث موٹروے پر گاڑی روک کر خاتون شوہر کا انتظار کر رہی تھی، پہلے خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو فون کیا، رشتے دار نے موٹر وے پولیس کو فون کرنے کا کہا۔
جب گاڑی بند تھی تو خاتون نے موٹروے پولیس کو بھی فون کیا مگر موٹر وے پولیس نے مبینہ طور پر کہا کہ کوئی ایمرجنسی ڈیوٹی پر نہیں ہے۔اطلاعات کے مطابق موٹروے ہیلپ لائن پر خاتون کو جواب ملا کہ گجر پورہ کی بِیٹ ابھی کسی کو الاٹ نہیں ہوئی۔پولیس کے مطابق زیادتی کا شکار خاتون کے میڈیکل ٹیسٹ میں خاتون سے زیادتی ثابت ہوئی ہے۔
دوسری جانب سی سی پی او لاہور نے اس افسوسناک واقعہ کے دوران انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دیا جس کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے۔سی سی پی او کی وضاحت ایسی نہیں کہ جسے اخلاقی طور پر بہتر سمجھاجائے جس پر انہوں نے خاتون کو رات کو نہ نکلنے کی بات کی تھی اور اس میں فرانس کی مثال دیتے ہوئے کہاتھا کہ یہ پاکستان ہے فرانس نہیں،جبکہ خاتون کو اس روٹ کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے تھا۔
بہرحال ملک میں زیادتی کیسز کی شرح میں جس طرح اضافہ ہورہا ہے یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے خواتین اور چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کے رونما ہونے سے عام لوگ خودکو غیرمحفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہاں جنگل کا قانون چل رہا ہے درندہ صفت لوگ کھلے عام خواتین اور بچیوں کی عصمت دری کررہے ہیں جبکہ اس کی تدارک کیلئے سخت ایکشن دیکھنے کو نہیں مل رہا۔
صرف موجودہ حکومت کی بات نہیں بلکہ یہ عرصہ دراز سے ہوتا آرہا ہے خاص کر خواتین اور بچوں کے حوالے سے موجود قوانین پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا،اگر سالانہ ان رپورٹس کا جائزہ لیاجائے تو دنیا کے شاید ہی چند ایسے ممالک میں پاکستان کا شمار ہوگا جہاں پر اس طرح کی زیادتیاں ہوتی ہوں مگر حالیہ واقعہ نے توسب کو بھونچکاکردیا ہے
ہر طرف سے آوازیں بلند ہورہی ہیں سیاسی، سماجی، عوامی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آرہا ہے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چل رہا ہے، واقعہ میں ملوث سفاک ملزمان کی پھانسی کا مطالبہ کیاجارہا ہے گوکہ پھانسی کے مطالبہ کے حوالے سے ہمارے یہاں دو رائے پائی جاتی ہیں اور الگ الگ نفسیات کے طور پر اس سزا کو دیکھا جاتا ہے مگر بات پھانسی کی نہیں بلکہ ان واقعات کے تدارک کا ہے کہ کیسے اس طرح کی زیادتی کے واقعات سمیت خواتین اوربچیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو روکا جائے۔
یقینا یہ ذمہ داری سیاسی جماعتوں خاص کر اس وقت پارلیمنٹ میں بیٹھے منتخب عوامی نمائندگان کی بنتی ہے کہ خواتین اور بچوں کے تحفظ کے حوالے سے موجود قوانین پر ہنگامی بنیادوں پر عملدرآمد اور ان کی منظوری کیلئے کردار ادا کریں جس میں ان کی سزا کا تعین کیاجاسکے محض بیانات سے کچھ نہیں ہوگا۔عوام میں اس وقت شدید غم وغصہ پایاجاتا ہے لہٰذا عوام کی طرف سے قانون خود ہاتھ میں لینے سے پہلے حکمرانوں کو اپنی ذمہ داری اور فرائض کو نبھانا ہوگا جس میں اپوزیشن بھی اپنا اہم کردار ادا کرے۔بہرحال جنسی زیادتی کے واقعات کے سدباب کیلئے اب یہ ضروری ہوگیا ہے
کہ نصاب پر خاص توجہ دی جائے کہ تعلیمی اداروں میں اس حوالے سے شعور وآگاہی دی جائے تاکہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکیں اور ساتھ ہی ایک اہم مسئلہ کی طرف بھی ضرور غور کرنا عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جس طرح کے غیر اخلاقی ایپس سوشل میڈیا پر چل رہے ہیں ان کے استعمال سے گریز کریں یہ ایک مشترکہ مسئلہ ہے اور اس میں سب کا کر دار انتہائی اہم ہے۔ امید ہے کہ قانون اپنا کام کرے گی اور شہری اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے تعاون کرینگے۔