|

وقتِ اشاعت :   September 14 – 2020

وزیراعظم عمران خان گزشتہ روزایک روزہ مختصر دورہ پر کوئٹہ پہنچے، انہوں نے گورنراوروزیراعلیٰ بلوچستان سمیت وزراء سے ملاقات کی ۔وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کی نوید بھی سنائی۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کی اولین ترجیح پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود اور پسماندہ علاقوں کی ترقی و خوشحالی ہے۔ بد قسمتی سے ماضی میں بلوچستان سے وعدے تو کئے گئے مگران پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ بلوچستان کے لئے ہماری حکومت نے پی ایس ڈی پی میں سب سے زیادہ فنڈز مختص کئے جو ہماری حکومت کی بلوچستان سے وابستگی اور خلوص نیت سے کمٹمنٹ کی عکاسی ہے۔رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔

یہاں ترقی کی بے پناہ صلاحیت اور مواقع موجود ہیں۔بلوچستان میں ترقی کے حوالے سے ترجیحات مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔کچی کینال سے زرعی ترقی کے بے پناہ امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ ہم بلوچستان کے ہر علاقے خصوصاََ جنوبی بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔ عنقریب وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر بلوچستان کا دورہ کریں گے اور جنوبی بلوچستان کی ترقی کے لئے اسپیشل پیکیج مرتب کرنے کے حوالے سے مشاورت کریں گے۔ وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ وزارت منصوبہ بندی نے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے ایک کوارڈی نیشن کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے شعبہ تعمیرات کے حوالے سے جو اقدامات لئے ہیں ان سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور تمام اسٹیک ہولڈرز مستفید ہوں گے۔ ممبران نے ویسٹرن کوریڈور شروع کرنے پر وزیراعظم کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔

ممبران نے کراچی چمن روڈ کی اہمیت کے پیش نظر اس سڑک کو دو رویہ کیرج وے بنانے کے حوالے سے منصوبہ بندی کا عمل شروع کرنے پر بھی وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔بہرحال یہ پہلی بار نہیں کہ کوئی وزیراعظم یہ بات کہہ رہا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ پہلے وعدے کئے گئے پھر انہیں پورا نہیں کیا گیا جبکہ ہماری حکومت خلوص نیت کے ساتھ بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کیلئے وژن رکھتی ہے جسے عملی جامہ پہنانے کیلئے نہ صرف سنجیدگی بلکہ عملی طور پر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔یہی بات سابق صدر آصف علی زرداری ،پھر اس کے بعد سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف بھی دہرا چکے ہیں جو ملک کی دو بڑی اہم جماعتوں کے سربراہان ہیںمگر بلوچستان آج بھی دیگر صوبوں کی نسبت ہر شعبے میں پیچھے دکھائی دیتا ہے یہاں انفراسٹرکچر موجود ہی نہیں ہے

جبکہ بنیادی سہولیات کامسئلہ جوں کا توں ہے اس لئے یہاں کے عوام نے بڑے خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے وہ صرف معمولی سہولیات چاہتے ہیں جو انسانی زندگی کیلئے ضروری ہیں، صحت، تعلیم، روزگارجو یہاں کے سب سے اہم مسائل ہیں گوکہ بلوچستان ملک کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں سے سونا تک نکلتا ہے اور میگامنصوبوں سے وفاق کو بڑے پیمانے پر مالی فائدہ پہنچتا ہے جبکہ صوبہ کے خزانے کی حالت یہ ہے کہ جب بھی بجٹ پیش ہوتا ہے وہ خسارہ کاہی ہوتا ہے مگر شومئی قسمت کہ صوبائی حکومتیں اپنے بجٹ کو عوام دوست بجٹ کہتی ہیں

تمام رقم تنخواہوں اور پنشن میں چلی جاتی ہے ترقی کیلئے رقم ہی نہیں بچتی تو کیسے صوبہ کوئی پروجیکٹ شروع کرسکتا ہے جس سے خودصوبائی خزانہ کو براہ راست فائدہ پہنچے کم ازکم خسارے کا بجٹ پیش نہ ہو۔ بہرحال بلوچستان کے عوام آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی ایک حکومت روایات سے ہٹ کر حقیقی معنوں میں بلوچستان کیلئے کچھ کرے گی تاکہ ان کی زندگیوں میں تبدیلی آسکے۔وزیراعظم عمران خان کو صرف ایک اہم قدم اٹھانے کی ضرورت ہے یعنی بلوچستان میں اس وقت جتنے منصوبے چل رہے ہیں ،ان سے بلوچستان کو اس کا جائز حق دلانے میں ذاتی دلچسپی لیں اور این ایف سی ایوارڈ کے اجراء کو یقینی بنائیں تو بلوچستان میں بہت بڑی تبدیلی معاشی حوالے سے آئے گی۔ بلوچستان کی ترقی سے قومی خزانہ پر نہ صرف بوجھ کم ہوگا بلکہ بلوچستان مزید منافع دینے والا خطہ بنے گا جس کیلئے صرف توجہ اور دلچسپی درکار ہے جس کیلئے وزیراعظم عمران خان کو چند اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔