|

وقتِ اشاعت :   December 2 – 2021

26نومبر 2012ء میں انڈیا کی راج دھانی دہلی میں متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے شخص اروند کیجروال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی۔ اروند کیجر وال قطعی طورپر معروف شخصیت نہیں تھے لیکن وہ ملک کے زوال پذیر کلچر سے نالاں تھے۔ انہوں نے دہلی میں بجلی اور پانی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف مہم چلائی تو عوام نے ان کا پورا ساتھ دیا جس کے بعد عام آدمی پارٹی پسے ہوئے عوام میں ایک مقبول جماعت کے طورپر ابھری کر سامنے آئی۔

یہ جماعت حیران کن طورپر وہاں کی ریاستی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں بھی جیت اپنے نام کرچکی ہے۔ 2020 کے دہلی کے ریاستی انتخابات کے دوران بھارت کی قومی دھارے میں شامل بی جی پی اور کانگریس جیسی مضبوط جماعتوں کو عام آدمی پارٹی کا سونامی بہا کر لے جاتا ہے۔ عام آدمی پارٹی 70 میں سے 63 نشستوں پر کامیابی حاصل کرتی ہے۔ اس وقت وہ ریاست میں برسر اقتدار ہے۔

’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کی سربراہی مولاناہدایت الرحمن کررہے ہیں ان کا تعلق بھی ایک متوسط گھرانے سے ہے لیکن ان کا بنیادی تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی جماعت میں سرگرم تھے اور اس وقت وہ جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی جنرل سیکریٹری کے عہدہ پر فائز ہیں۔ گوادر کو حق دو تحریک کا آغاز انہوں نے چند ماہ پہلے شروع کیا تھا تحریک کے بنیادی مقاصد مسائل میں پسے ہوئے عوام اور مسائل میں گرے ہوئے ہر طبقہ کو نجات دلانا ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے حق دو تحریک مکران میں مقبول ہوگئی۔ مولانا کی قیادت میں گوادر کو حق دو تحریک نے بنیادی مسائل پر آج کل تحریک شروع کررکھی ہے۔ ان کے بنیادی مطالبات میں غیر قانونی ٹرالنگ کا خاتمہ اور بارڈر ٹریڈ کی بحالی سر فہرست ہیں۔
گوادر کو حق دو تحریک کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے وہ گزشتہ کئی دنوں سے احتجاجی دھرنا بھی دے رہے ہیں لیکن اس میں شرکاء کی شرکت دلچسپی کے ساتھ جاری ہے۔ گوادر کے علاوہ قرب و جوار سمیت مکران کے دیگر علاقوں سے بھی لوگ دھرنے میں شرکت کررہے ہیں۔ حق دو تحریک نے اپنی مقبولیت کا بھی لوہا منوایا ہے جس کا اندازہ کفن پوش ریلی، بچوں کی ریلی اور خواتین کی ریلی سے لگایا جاسکتا ہے۔ خصوصاً خواتین کی ریلی کو بے حد سراہا جارہا ہے۔

حق دو تحریک کی پذیرائی کے بعد عوام کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی چیلنج بن گئی ہے۔ اس حوالے سے یہی تجزیہ کیا جارہا ہے کہ حق دو تحریک کی بھر پور عوامی پذیرائی نے سیاسی جماعتوں کو فی الحال غیر موثر بنایا ہے کیونکہ مولانا ہدایت الرحمن مربوط سیاسی وابستگی رکھنے کے باوجود اپنے پروگرام میں سیاسی تشہیر سے اب تک گریزاں نظر آتے ہیں۔ مولانا کی قیادت میں جاری حق دو تحریک کے دوران انہوں نے اب تک اپنا پارٹی پرچم استعمال نہیں کیا ہے اور نہ ہی جماعت کا کوئی سلوگن جاری کیا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ مولانا ہدایت الرحمن جماعت اسلامی جیسی نظریاتی جماعت کے رکن ہیں اور صوبے میں جماعت کے اہم عہدے پر فائز ہیں کیا وہ گوادر کو حق دو تحریک کو جاری رکھنے کے لئے اسی طرح اجتماعی فکر کو بنیاد بناکر آگے بڑھیںگے۔؟ کیونکہ جو لوگ حق دو تحریک کی حمایت کررہے ہیں وہ سیاست کی بجائے وسیع تر عوامی مفاد میں جدو جہد کو ترجیح دینے کے حامی ہیں۔
گوادر کو حق دو تحریک کا جائزہ لیا جائے تو یہ بظاہر سماجی تحریک کے طورپر آگے بڑھ رہی ہے اور سیاسی نعروں سے گریز کررہی ہے اس تحریک میں قوم پرستی کا عنصر بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ تحریک کو برابر پذیرائی بھی مل رہی ہے بالخصوص نوجوانوں کی تحریک کے ساتھ سرگرم ہونا معنی خیز ہے۔ حق دو تحریک کی عوامی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے جو دن بدن بڑھ بھی رہی ہے۔کہتے ہیں کہ روایتی طرز سیاست سے بیزاری اور عام آدمی کے مسائل میں کوئی فرق نہ پڑنے کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کا ظہور ہوا تھا اور عوام کی اکثریت نے اس کو پذیرائی بخشی۔

مولانا ہدایت الرحمن کی اب تک کی حکمت عملی نے ان کو عوام کا مقبول لیڈر بھی بنایا ہے۔ عوامی صفحوں میں حق دو تحریک کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ کے پیش نظر یہ سوال موجود ہے کہ کیا یہ تحریک بھی علاقائی سطح پر موجود سیاسی جماعتوں کو غیر موثر بناکر عام آدمی پارٹی کی طرز پر عوامی حمایت کے بل بوتے پر مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بھی جاری رہے گی؟