|

وقتِ اشاعت :   December 4 – 2021

یہ مضمون روز نامہ ڈان میں شائع ہوا۔عا سم سجاد اختر قائد اعظم یونیورسٹی میں پڑھا تے ہیں۔مضمون کی اہمیت کے پیش نظراردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔
بلو چستان یو نیورسٹی جو پا کستان کے ستم زدہ صوبے بلو چستان کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے ، میں پچھلے تین ہفتوں سے طلبا ہڑتال پر ہیں اور اسی دوران گوادر کے ہزاروں لوگ سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں ۔کو ئٹہ کے طلبا اپنے دو سا تھیوںکے اغوا پر توجہ دلانے کی کوشش کر رہے ہیںجبکہ گوادر کے لوگ بنیادی سہولیات جیسے پانی اور بجلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔یہ دونوں پر امن اورمکمل حق بجانب احتجاج بد قسمتی سے ذرائع ابلاغ عامہ میں معمولی یا کوئی جگہ نہ پا سکے۔یہ بات بار بار کہی جاتی رہی لیکن اسے دوبارہ کہنا چا ہیئے: کہ مو جودہ پاکستان میں بلو چستان کے ساتھ ایک کالونی سے ذرا بہتر سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔کچھ بلوچ اور اسی طرح پشتون اور ہزارہ پا کستان کے مرکزی سیاسی ،معاشی اور ثقافتی زندگی سے منسلک ہیں۔لیکن ملک میں غیر مساوی ترقی اور نو آبا دی ریاستی انتظامیہ کے منطق پر دلائل اب بھی بلو چستان کاباقی پا کستان سے نسبت کا حد سے زیادہ تعین کرتے ہیں۔(But the logic of uneven development and colonial statecraft still over-determine Balochistan relationship with rest of Pakistan.) ۔ جب تک اسے تسلیم نہیں (acknowledge )کیا جاتااور جبری گمشدگیوں جیسے اقدامات ترک نہیں کئے جاتے اس وقت تک بلوچستان کے لوگوں اور خاص کربلوچ نو جوانوں میں بیگانگی ختم نہیں ہوگی۔
دنیا کے سپر پاور امریکہ کے مقامی با شندوں (red indians ) کا مقدمہ(case ) اور بلوچ قومی سوال اگر چہ ایک جیسے نہیں لیکن ان میں مشا بہت دیکھی جا سکتی ہے۔امریکہ نے حال ہی میں عام تعطیل کا دن منایاجسے وہ یوم تشکر(Thanks giving ) کہتے ہیں، جو پہلی یورپی آباد کاروں کی شمالی امریکہ میں چار سو سال پرانی قربانیوں کی سالانہ یادگاری چھٹی ہے۔امریکہ کی سرکاری تاریخ اس خیال (idea )کے گرد گھومتی ہے ، کہ براعظم امریکہ کو یورپی لوگوں نے دریافت کیا،اس ورجن لینڈ پر وہ آئے اور ایک مہذب سماج کی بنیاد رکھی ،لیکن جو تباہی یورپی باشندوں نے مقامی با شندوںپر لائی اس پر پالش لگائی گئی۔اس طرح ایک جانب مر کزی امریکن (Mainstream American ) امریکہ کے بننے کا یوم تشکر مناتے ہیں تو دوسری جانب امریکہ کے مقامی باشندے جنکی آبادیاں اب یہو دیوں کے خاص محلے (ghettoes )لگتے ہیں، قتل و غارت سے بھری اس تاریخ کا ماتم کرتی ہیں۔تاریخ کے ہمیشہ سے دو پہلو ہوتے ہیںاور ہم جیسے اکثر سوچ بچار کے بعد غالب بیانیہ(dominant verssion ) اپنا تے ہیں، جسکا جدید قومی ریاست پروپگنڈہ کرتی ہے۔دبے ہوئے تا ریخوں(suppressed histories ) کوتلاش کر کے سامنے لانا بذات خود آزادی کی جا نب اشارہ ہے، اور ترک شدہ نو آبادیاتی باقیات کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ خان آف قلات ، میر احمد یار خان جوایک آزاد ریاست کا خواہشمند تھے نے پا کستان میں شمولیت سے انکار کیا، پھر فوجی اہلکار بلوچ ایریا میں بھیجے گئے تاکہ خان کی شمولیت کو یقینی بنا یا جائے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے روشن خیال بلوچ قوم پرست شخصیات کوگزشتہ 75 سال سے دیوار سے لگایا گیااور بار بار کوشش کی گئی کہ وہ سیاست کے قومی دھارے میں شامل ہوں۔خاص کر 70 کی دھائی میںجب نیشنل عوامی پارٹی (NAP )بلو چستان میں کا میاب ہوئی،میر غوث بخش بزنجو گورنر اور سردار عطاء اللہ مینگل وزیر اعلیٰ ہوئے۔تقریبا ً 50 سال بعد بلو چستان میں پار لیمانی سیاست کو کٹھ پتلی تماشہ (puppet show ) کی حد تک گرا یا گیا۔اس کی مثال موجودہ کنگز پارٹی (kings party )بلو چستان عوامی پارٹی(BAP ) ہے۔
امریکی آبادکار کا لو نیل پرو جیکٹ کی ابتدا سے لیکرکئی سو سال بعد بھی دیسی با شندے دوسرے درجہ کے شہری تھے، حا لانکہ دریافت سے قبل وہی امریکہ کے مالک تھے ۔ کیا کچھ دہائیاں یا کئی سو سال بعد بھی بلوچ اور اسی طرح کے دوسرے محکوم لوگ اپنے کو نو آ بادیاتی رعیت (colonial subjects )سمجھیں گے؟جواب ہاں میں ہے۔کیونکہ امریکہ جو ایک سپر پاور ہے، اسکے پاس دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور فوج ہے ، جو دنیا کو اپنی مر ضی سے چلا سکتا ہے،وہ کئی عام امریکیوں کو مالی فوائد دے کر خاموش کر سکتاہے ، لیکن گزشتہ سالوں میں ظاہر ہوا کہ امریکی سماج میں کافی نا برابری اور نا انصافی موجود ہے اور نسلی بنیادوں پر بری طرح تقسیم ہے اور یہ کہ امریکہ میں استعماریت کی میراث(legacy ) اب بھی زندہ اور سلامت ہے۔ما ضی میں بلوچوں نے کئی بار انصاف کی دھائی دی۔آج پا کستان کے مر کزی دھارے میں عدلیہ ، جنرلز اور سیاسی اشرافیہ کے ما بین محلاتی سا زشوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکا بنیادی مقصد سٹیبلشمنٹ مر کوزنظام(Establishment centric system ) کے موجود ڈھانچہ( framework )میں رہتے ہوئے اقتدار حاصل کرنا ہے۔ججوں اور جر نیلوں کے احتصاب کا مطالبہ ضروری ہے جو دوسری با توں کے علاوہ پا کستان میں نسلی علاقوں اور خاص کر بلو چستان میں جاری سلو ک کے ذمہ دار ہیں، ان میں اور یہاں تک کہ حذب اختلاف کی پار ٹیوں میں کو ئٹہ طلبا اور گوادر عوامی احتجاجوں پر تشویش کے فقدان سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ حکمران طبقہ کی اکثریت ان سیاسی قوتوں کے کچلنے پر متفق ہیں جو نو آبادیاتی ریاستی نظام ، بلوچ اور بلو چستان کے وسائل کے استحصال کے خلاف ہیں۔قومی دھارے میں کام کر نے والی طاقتیں بلوچوں کے رستے زخموں کو انکے انجام تک نظر انداز کر نے پر کار بند ہیں ۔دبی ہوئی قومی تا ریخیں اس وقت تک اپنی موجودگی کا احساس (rear their head )دلاتی رہتی ہیں جب تک انہیں تسلیم کر کے انصاف نہ کیا جائے۔قومی سلامتی اور ترقی کے نعرے کبھی بھی بلوچ مسئلے کا حل نہیں نکا لیں گی۔ختم