|

وقتِ اشاعت :   May 1 – 2022

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد اپوزیشن اتحاد پر مشتمل نئی حکومت بنی جس میں تمام جماعتوں کو کابینہ کا حصہ بنایا گیا ہے سوائے پی ٹی آئی کے۔ کابینہ میںملک کی بڑی اور چھوٹی جماعتیں شامل ہیں جن کی قومی اسمبلی میں اپنی نشستیں ہیں جبکہ کچھ وزراء ممبر اسمبلی نہ ہونے کے باوجود بھی کابینہ کا حصہ ہیں۔

پی ٹی آئی سے سب کو یہی شکوہ رہا ہے کہ اس کی بدترین گورننس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہوگیا ہے، آئے روز مہنگائی، پیٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس کی قیمتوں اضافہ سمیت لوگ روزگار سے ہاتھ دھو رہے تھے ،سرمایہ کاری نہیں ہورہی تھی جبکہ بیرونی سرمایہ کاری تو صفر ہوگئی تھی معیشت کا سارا دارومدار ورلڈ بینک، آئی ایم ایف سمیت بڑے ممالک کے قرضوں پر تھا ۔قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ سود کی مد میں تمام محاصل چلے جاتے تھے اس لئے کسی بھی سیکٹر پر سرمایہ کاری کی گنجائش نہیں بچ پاتی تھی جبکہ بجٹ مکمل خسارے کا ہی پیش ہوتا رہا۔

اس تمام تر صورتحال سے لوگ بہت زیادہ تنگ آچکے تھے کسی طرح کی امید بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی کہ چند ماہ یا برس میں پی ٹی آئی کی حکومت معاشی بہتری لاسکے گی، یہ غم و غصہ عوام کے اندر موجود تھا مگر ساتھ ہی سیاسی عدم استحکام بھی بحران کی بڑی وجہ بنی ہوئی تھی اور پی ٹی آئی کے اپنے اراکین سمیت اتحادی بھی فاصلے اختیار کررہے تھے جس کا اظہار وہ وقتاًفوقتاً اسمبلی سمیت دیگر فورمز پر کرتے رہے تھے۔ یہ تمام معاملات اپوزیشن کے حق میں جانے لگے اپوزیشن نے پی ٹی آئی کے ناراض اراکین اور ان کے اتحادیوں سے بیک ڈور رابطے شروع کردیئے ،نمبر گیم اطمینان کے ساتھ پورے ہوئے تو اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی اور بلآخر پی ٹی آئی حکومت کو فارغ کردیا گیا۔ نئی حکومت کا وعدہ یہ ہے کہ وہ مہنگائی کے خاتمے سمیت تمام بحرانات کا حل نکالے گی تاکہ عوام کے اندر ان کی پذیرائی بڑھ سکے۔ بہرحال اب تک معاشی حوالے سے چیلنجز موجود ہیں جنہیں حل کرنا ضروری ہے کس طرح سے راستہ نکالا جائے گا یہ موجودہ حکومت پر منحصر ہے مگر آئی ایم ایف کا دبائو اب بھی برقرار ہے۔

آئی ایم ایف نے علاقائی اکنامک آئوٹ لک رپورٹ جاری کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس سال معاشی شرح نمو 4 فیصد رہنے کا امکان ہے جب کہ رواں مالی سال کے اختتام تک مہنگائی میں ریلیف نہیں ملے گا۔ آئی ایم ایف کے مطابق رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان میں مہنگائی 11 فیصد سے زیادہ رہے گی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال جی ڈی پی گروتھ 5.6 فیصد تھی، اس سال مہنگائی کی شرح مہنگائی کی شرح 11.1 فیصد رہے گی، مہنگائی اکتوبر 2021 کے تخمینے سے 3.4 فیصد زیادہ رہے گی۔ آئی ایم ایف نے عالمی سطح پر غذائی اجناس اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کو مہنگائی کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ اب آئی ایم ایف کی موجودہ رپورٹ کو سامنے رکھ کر موجودہ حکومت اپنے وعدوں کو وفا کیسے کرے گی یہ اہم سوال ہے ۔اگر موجودہ حکومت بھی ریلیف دینے میں ناکام رہی اور معیشت کی سمت سابق طرز پر چلتی رہی تو خود اپوزیشن جماعتوں کے لئے مستقبل میں سیاسی حوالے سے مشکلات پیداہوں گی کیونکہ حکومت کو ایک سال کے اندر ہی اپنی کارکردگی دکھانی ہے پھر انتخابات میں کامیابی کے لئے عوام کے درمیان انہیں جانا پڑے گا جس طرح کے نتائج حکومت دے گی اسی طرح کا ردعمل سامنے آئے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جس مشکل وقت میں اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سنبھالنے کا چیلنج قبول کیاہے اس میں کتناسرخرو ہونگے یہ چند ماہ کے اندر ہی واضح ہوجائے گا۔