|

وقتِ اشاعت :   August 8 – 2022

آج آٹھ اگست ہے۔ یہ وہی تاریخ ہے جب2016ء￿ میں اس دن وہ سانحہ پیش آیا جس کے دیئے ہوئے زخم ہمیشہ تازہ رہیں گے اور ان سے وابستہ تلخ یادوں کاسلسلہ بھی کبھی ختم نہیں ہوگا۔یہ وہ دن ہے جب کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ایک ایسے واقعہ رونما ہوا جو صرف پشتون بلوچ ہی نہیں بلکہ کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کی تاریخ میں ایک خونیں باب کی حیثیت سے ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یو ں تو بلوچستان کا ہر مہینہ اب ہم کو پشتون بلوچ شہداء کی یاد دلاتا ہے لیکن خاص طور پر اگست کے مہینے میں یہ یاد اور شدید ہوجاتی ہے 12اگست 1948کو بابڑہ میں فخرافغان باچاخان کی خدائی خدمت گار تحریک کے نہتے اور پرامن جلسے پر فائرنگ کرکے خونی باب رقم کیا گیا باچاخان نے اس روز اپنے چھ سو ساتھیوں کی لاشیں اٹھائیںتب سے اب تک ہر سال اگست کے مہینے میں بابڑہ کے شہیدوں کی یاد منائی جاتی ہے یہاں بلوچستان میں 26اگست 2006کو سابق گورنراور جے ڈبلیو پی کے سربراہ نواب اکبر بگٹی کو 79سال کی عمر میں ایک آپریشن میں شہید کیا گیا اور اب 8اگست 2016کو سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش حملے کے ذریعے خون کی ہولی کھیلتے ہوئے 80وکلاء و عام شہریوں کو شہید کیا گیا

آج ان شہداء￿ کی چھٹی برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے آٹھ اگست کا یہ سانحہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ سب سے پہلا سوال جو اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسمبلی فلور پر بھی بار بار اٹھایا جاتا رہا وہ یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر سیکورٹی اقدامات کے باوجود آخر اتنا بڑا سانحہ کیسے رونما ہوا اس سانحے نے ڑوب سے گوادر تربت اور چمن سے حب اور پشین سے نوشکی پورے صوبے کو ہلاکر رکھ دیا کوئی ایسا گھر ،گلی، کوچہ اور محلہ نہیں ہے جو سوگ میں نہ ڈوبا ہو۔ اس سانحے میں بعض سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کے بھائی اور بیٹے، سینئر وکلاء￿ کے علاوہ میڈیا سے وابستہ افراد بھی شہید ہوگئے یعنی اس سانحے نے بلوچستان کے تمام شعبوں کو اس قدر متاثر کیا کہ اس نقصان کا پورا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے اس سانحے کے زیادہ تر شہداء￿ پشتون اور بلوچ قوم سے تعلق رکھتے ہیں ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو بلوچستان اور باالخصوص کوئٹہ کے انتہائی پڑھے لکھے شعبے سے تعلق رکھنے والے تھے اس لئے اس سانحے پر آنکھ اشکبار ہوئی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کے چھوٹے بھائی عسکر خان ایڈووکیٹ بھی اس سانحے میں شہید ہوگئے ان کی صرف ایک بیٹی تلوسہ ہے۔ نامور قانون دان بازمحمد کاکڑ ایڈووکیٹ بھی شہید ہوگئے ان کا بیٹا آرین خان آج بھی اپنے والد کی واپسی کی راہ تک رہا ہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کے جوانسال سال صاحبزادے سنگت جمالدینی بھی شہید ہوگئے۔پشین کی 9بہنوں کا اکلوتا بھائی ضیا? الدین ایڈووکیٹ شہید ہوگیا ان کی بھی صرف ایک بچی ہے۔ اب کس کس شہید کی بات کی جائے جس جس کی بھی بات کی جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس سانحے کے جو بھی ماسٹر مائنڈ تھے ان کی پلاننگ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا حالانکہ اس سے قبل اس طرح اور نوعیت کے چار واقعات رونما ہوئے تھے۔اس سانحے کو پلان کرنے والوں کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ وکلاء￿ برادری کے انتخابات ہونے والے تھے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات 13اگست کو منعقد ہوناتھے جس میں چار پینل حصہ لے رہے تھے

سانحے میں جو وکلاء￿ شہیدہوئے ان کا تعلق انہیں پینلز سے تھا ان میں سے بیشتر سیاسی حلقوں سے تعلق رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کی سیاسی اور سماجی تعلقات کافی وسیع تھے بیشتر سینیئر وکلاء￿ کی وجہ سے مقامی آبادی کو نہ صرف ریلیف ملا کرتا تھا بلکہ صوبے کی حالیہ صورتحال اور حالات میں وکلاء￿ کے چیمبرز دراصل سیاسی گپ شپ کے ادارے بھی تھے۔ اس سانحے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف فوری طور پر کوئٹہ پہنچ گئے لیکن جن لوگوں کو وزیر اعظم اور آرمی چیف سے بھی پہلے کوئٹہ پہنچنا چاہئے تھا وہ نہ پہنچ سکے اور اسلام آباد میں ہی رہ گئے۔دوسری جانب بلوچستان حکومت جس کی سربراہی اس وقت مسلم لیگ(ن)کے پاس تھی اس کے اتحادیوں میں پشتون اور بلوچ قوم پرست بھی شامل ہیں ان پر عوامی تنقید میں بہت زیادہ اضافہ ہوا کہ جب یہ جان لیوا سانحہ ہوا تو حکومت میں شامل پشتون بلوچ حکومتی قوم پرست جماعتوں کے قائدین اور وزراء￿ کہا ں تھے ؟ وہ کیوں نظر نہیں آئے؟ دوسری جانب سے حکومت کی جانب سے جب اس سانحے پر یہ کہا گیا کہ اس کا نشانہ سی پیک تھا۔حکومت کے اس موقف پر پشتون نوجوان طبقے نے انتہائی سخت سوالات اٹھا ئے کہ جب ہم اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا رہے تھے تو حکومت کو سی پیک کی پڑی ہوئی تھی یہ سوالات آج اس سانحے کے چار سال بعد بھی اٹھائے جارہے ہیں اس سانحے کی وجہ سے کوئٹہ سمیت پورا صوبہ غم اور سوگ کی کیفیت میں ڈوب گیا بلوچستان میں گزشتہ ڈیڑھ عشرے کے دوران بدامنی ، ٹارگٹ کلنگ ،

بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات میں بلوچستان کے جتنے نوجوان اپنی زندگیوں سے گئے ہیں ان کی صحیح تعداد کسی کو نہیں معلوم۔کوئی نہیں جانتا کہ اب تک کتنے ہزار لوگ مارے جاچکے ہیں ان پندرہ سالوں میں مارے جانے والوں میں کئی پشتون اور بلوچ افسران بھی شامل ہیں۔سانحہ کوئٹہ پر مولانا محمد خان شیرانی نے قومی اسمبلی میں جو کچھ کہا وہ بھی لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ چند سال قبل ٹارگٹ کلنگ اور اغواء￿ برائے تاوان کا سلسلہ چل پڑاتھا ڈاکٹر،ٹیچر، شاعر ، فنکار، طلبہ ،صحافی ،سیاسی کارکن اور سیاسی رہنما?ں تک کو ٹارگٹ کیا گیا بلوچستان میں اجتماعی قبروں کی برآمدگی کے بعد اجتماعی قتل عام کیا گیا جس میں شہید ہونے والے سب کے سب پڑھے لکھے اور انتہائی باصلاحیت نوجوان،اور سینئر وکلاء￿ شامل تھے اس واقعے کے بعد اس وقت کی صوبائی حکومت کا رویہ انتہائی نامناسب رہا لواحقین کو مطمئن نہیں کیا جاسکا لواحقین اس وقت مطمئن ہوتے جب حکومتی اراکین سانحے کے فوراً بعد ہنگامی بنیاوں پر تفتیش کرتے ہوئے اصل محرکات سامنے لاتے اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات و سانحات سے بچنے کے لئے اپنی حکمت عملی وضع کرکے عوام کو اس حوالے سے اعتماد میں لیتے مگر افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا بلکہ آج چھ سال بعد بھی لواحقین کو مطمئن نہیں کیا جاسکا۔