|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے دہشت گردی کے مقدمے میں حفاظتی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

گرفتاری کے خدشات کے پیش نظر سابق وزیراعظم عمران خان نے دہشت گردی کے مقدمہ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سابق وزیر اعظم کے خلاف اعلیٰ سرکاری افسران کو دھمکیاں دینے کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے وکیل بابر اعوان اور فیصل چوہدری کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔

سابق وزیراعظم کی جانب سے درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرے۔

سابق وزیراعظم کی جانب سے درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ عدالت جب کہے مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کو تیار ہوں، ماضی میں میرا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے، نہ ہی کبھی کسی مقدمے میں مجھے سزا ہوئی ہے، میرا فرار ہونے یا میری جانب سے پراسیکوشن کے شواہد خراب کرنے کاامکان تک نہیں ہے۔

درخواست میں عمران خان نے کہا کہ میں ضمانتی مچلکے جمع کرانے کو تیار ہوں، حفاظتی ضمانت منظور کی جائے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی دائر کردہ حفاظتی ضمانت کی درخواست پر رجسٹرار آفس اسلام آباد نے اعتراضات عائد کردیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے عمران خان کی درخواست پر 3 اعتراضات عائد کیے ہیں۔

ذرائع رجسٹرار آفس کا کہنا ہے کہ عمران خان نے بائیو میٹرک نہیں کرایا۔

ذرائع رجسٹرار آفس کے مطابق یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت میں جانے کی بجائے ہائی کورٹ کیسے آ گئے؟

درخواست میں تیسرا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمے کی مصدقہ نقل فراہم نہیں کی گئی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ مرگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کے دوران عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ایف آئی آر میں مجسٹریٹ علی جاوید نے شکایت کی کہ عمران خان نے اپنی تقریر میں آئی جی اسلام آباد پولیس، ڈی آئی جی اور خاتون مجسٹریٹ کو دھمکیاں دیں اور ان پر مقدمہ درج کرنے کو کہا، عمران خان کے ان الفاظ اور تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو دہشت زدہ کرنا تھا تاکہ پولیس افسران اور عدلیہ اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری نہ کر سکیں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل عمران خان نے آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد، خاتون مجسٹریٹ اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے خلاف مقدمہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ جو ظلم کرتا ہے وہ کہتا ہے ہمیں پیچھے سے حکم آیا۔

اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ اس وقت پاکستان میں لوگوں کے اوپر دہشت پھیلائی جارہی ہے غلام بنانے کے لیے۔

انہوں نے کہا تھا کہ شہباز گل کو جس طرح اٹھایا اور دو دن جو تشدد کیا، اس طرح رکھا جیسا ملک کا کوئی بڑا غدار پکڑا ہو، آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی کو ہم نے نہیں چھوڑنا، ہم نے آپ کے اوپر کیس کرنا ہے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ مجسٹریٹ زیبا صاحبہ آپ بھی تیار ہوجائیں، آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے، آپ سب کو شرم آنی چاہیے کہ ایک آدمی کو تشدد کیا، کمزور آدمی ملا اسی کو آپ نے یہ کرنا تھا، فضل الرحمٰن سے جان جاتی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ عمران خان کی تقریر کے دوران دیا جانے والا بیان قابل مواخذہ ہے اور ان کے خلاف علیحدہ مقدمہ درج کرنے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ کل عمران خان نے اپنی تقریر میں بہت ساری باتیں کی ہیں لیکن اس کے ایک حصے میں آپ سب سن لیں۔

پریس کانفرنس کے دوران وزیر داخلہ کی جانب سے عمران خان کی ایف نائن اسلام آباد میں کی جانے والی تقریر کی ویڈیو بھی چلائی گئی جس میں عمران خان نے ڈی آئی جی اور خاتون مجسٹریٹ کے خلاف ایکشن لینے اور مقدمہ کرنے کی تنبیہ کی تھی۔

رانا ثنااللہ نے عمران خان کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے ایک خاتون جج کو نام لے کر دھمکیاں دیں اور افسرز کو کہا کہ آپ کو شرم آنی چاہیے، عمران خان صاحب! آپ کو خود اس روز شرم کیوں نہیں آئی جب آپ نے ایف آئی اے کے بابر بخت کو تھانے میں بھیجا تھا اور وہاں اس نے آٹھ، دس مسلح لوگوں کے ہمراہ محسن بیگ پر تشدد کیا اور اس کی ویڈیو بنا کر آپ کو بھیجی گئی، وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر وہ ویڈیو دیکھتے ہوئے آپ کو شرم کیوں نہیں آئی؟

انہوں نے کہا کہ کل عمران خان کی تقریر کے دوران دیا جانے والا بیان قابل مواخذہ ہے، اس حوالے سے جائزہ لیا جارہا ہے، میری وزارت نے اس بارے میں رپورٹ تیار کی ہے کہ آیا ان کا یہ بیان ان کے گزشتہ دونوں بیانیوں کا تسلسل ہے اور کیا اس تقریر کو بھی اس مقدمے کا حصہ بنا کر عمران خان کو گرفتار کیا جائے یا انہیں اس مقدمے میں بطور ملزم نامزد کیا جائے یا پھر اس پر علیحدہ سے ایک مقدمہ درج کیا جائے۔

بعد ازاں، انہوں نے ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ مجسٹریٹ اور پولیس افسران کو دھمکیاں دینے پر عمران نیازی کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایسی حرکتیں معاشرے میں انتہا پسندی کو ہوا دینے کے ذمہ دار ہیں، عمران خان کو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔