|

وقتِ اشاعت :   August 23 – 2022

بلوچستان میںحالیہ بارشیں ہر طرف ہولناکیوں اور تباہی کی کئی داستانیں رقم کررہی ہیں۔ مسلسل ہونے والی بارشوں اور ندی نالوں کے بپھر جانے کے بعد ہنستے بستے گھر پانی میں بہہ چکے ہیں۔ گھر بچے ، نہ آنگن سب کچھ ملیا میٹ ہوگیا۔ کل تک جن بستیوں کے مکین ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے تھے اب اپنے جان کی امان کی فکر میں ہیں۔سیلاب کے بعد ہزاروں کی تعداد میں گھرانے کھلے آسمان کے نیچے آگئے ہیں اور جان بچانے کے لئے اہل و اعمال سمیت محفوظ مقامات کا رخ کررہے ہیں۔ والدین اپنے جگر گوشوں کو اپنے سینے سے لگائے در بدر بھٹک رہے ہیں۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق سیلاب متاثرین بے یارو مددگار گار پڑے ہوئے ہیں۔ کئی سیلاب متاثرین اپنے اجڑے ہوئے گھروں کا ملبہ دیکھ کر یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور اپنے ماضی کے خوشحال دنوں کو یاد کررہے ہیں۔ اور ساتھ ہی حکومتی امداد کے بھی منتظر ہیں مگر حکومت ہے کہاں؟
قدرتی آفات پر کسی کا بھی بس نہیں چلتا اور نہ ہی حکومت اِس کو روک سکتی ہے مگر پیشگی منصوبہ بندی کرکے اِس کے نقصان کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح عطاء شاد نے کہا تھا کہ،
سیلاب کو نہ روکیے رستا بنائیے
کس نے کہا تھا گھر لبِ دریا بنائیے
لیکن بلوچستان میں حکومت کی جانب سے سیلاب کی تباہ کاریوں کے ممکنہ امکان کے پیش نظر حکومتی اقدامات پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور سیلاب کے بعد حکومتی امداد کی رسائی کو ناپید قرار دیا جارہا ہے۔ سیلاب سے بلوچستان میں دوسو سے زائد لوگ اپنی قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں اور جو ہزاروں لوگ بے گھر ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں دل ہلانے والی ہیں متاثرین گھر بار سمیت اپنے مال مویشی اور قیمتی فصلوں سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ مال مویشی اور فصلیں سیلاب کی بے رحم لہروں میں بہہ جانے کے بعد سیلاب متاثرین سے ان کاروزگار کا وسیلہ بھی چھن گیا ہے۔ گھروں سے دربدر ہونے کا غم الگ ہے۔ اب نہ سائبان رہا اور نہ ہی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے روزگار باقی بچا ہے۔
بلوچستان گزشتہ کئی دنوں سے سیلاب کے رحم و کرم پر ہے۔ ہر نیا دن سیلاب متاثرین کے لئے قیامت صغرا کا منظر لیکر آتی ہے جبکہ سیلاب متاثرین کی اشک شوئی اور اْن کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے حکومتی اقدامات تسلی بخش نہیں ہیں۔ اور تو اور قومی مین اسٹریم میڈیا پر بھی بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کو دکھانے یا اجاگر کرنے میں بھی خاطر خواہ جگہ نہ دینے کی شکایت بھی زبانِ زد عام ہیں۔ الزام لگایا جارہا ہے کہ بلوچستان میں رپورٹنگ کے جس معیار کا تعین کیا گیا ہے وہ سیلاب میں گرے متاثرین کی آہ بکا کو دیکھ کر بھی نہیں بدلا جارہا ہے۔ اِس وقت بلوچستان کے اکثریتی علاقے سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں ہیں۔ انسانی المیے میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے لیکن سیلاب سے تباہ شدہ بلوچستان کسی کا بھی دلچسپی کا محور نہیں بن سکا ہے۔ میڈیا شہباز گِل پر تشدد کی پہیلیوں کوسلجھانے میں اپنے ناظرین کو بھرپور انٹرٹیمنٹ دکھانے کی کوشش کررہا ہے اور ایک بلوچستان ہے جہاں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگاکر جان کی امان کی فکر میں ہیں۔ یہ غم شاید دکھانے لائق ہی نہیں۔
افسوس بلوچستان انسانی المیہ کا شکار ہے مگر حکمران، یہاں کا سیاسی اشرافیہ اور اپوزیشن اقتدار کو طول دینے اور اقتدار میں آنے کے لئے اپنے کارڈز پر اپنی نظریں جمائے رکھے ہوئے ہیں اور قومی میڈیا بلوچستان کو خبروں کی ایک ٹکر کی حد تک فوقیت دے رہا ہے۔
سیلاب زدہ بلوچستان ہر گزرتے دن انسانی المیہ کی داستان سنا رہا ہے۔ مائیں، بچے اور بوڑھوں کی آنکھیں ان کی بے بسی کی داستانیں سنا رہی ہیں اور بحیثیت من الحیث قوم، ہمارا قومی جذبہ کہیں پر بھی جوش مارتے دکھائی نہیں دے رہا۔