|

وقتِ اشاعت :   October 12 – 2022

تربت: انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی ایک فیکٹ پائنڈنگ کمیٹی نے سابق سیکرٹری جنرل حسین نقی کی سربراہی میں تربت کا دورہ کیا جہاں انہوں نے سیاسی جماعتوں کی قیادت، آل پارٹیز کیچ کے رہنماؤں ،طلبہ تنظیموں کے نمائندوں اور سول سوسائٹی کے رضاکاروں سے ملاقات کی اور ضلع کیچ کے اہم ترین مسائل پر ان کی آراء و خیالات معلوم کیں، ایچ آر سی پی کی فیکٹ پائنڈنگ کمیٹی میں حسین نقی کے علاوہ وائس چیرمین حبیب طاہر، ماھین پراچہ اور معروف صحافی اکبر نوتیزئی شامل تھے

جبکہ ایچ آر سی پی کے ریجنل کوار ڈی نیٹر پروفیسر غنی پرواز بھی وہاں موجود تھے۔ تربت میں مقامی ہوٹل کے ہال میں انسانی حقوق کمیشن کے رہنما حسین نقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ قیام پاکستان کا مقصد اس خطے کے لوگوں کو سیاسی و سماجی شعور اور تحفظ دینا تھا، جناح نے واضح کیا کہ ملٹری کو اس نئی ملک میں قانون اور ریاست کے احکامات کی پابندی کرنی ہوگی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا، انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں لوگوں کو مختلف قسم کے بنیادی مسائل و مشکلات کا سامنا ہے،

کئی اضلاع میں آج بھی پینے کے صاف پانی کا مسئلہ درپیش ہے حالانکہ بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داری بنتی ہے۔ ان کا. کہنا تھا کہ سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی بھی رپورٹ ہورہی ہے خصوصاً بڑی تعداد میں سیاسی کارکنوں اور طلبا کی گمشدگی ایک اہم مسلہ کی صورت سامنے آئی ہے جس کے تدارک کے لیے ریاست کوئی انتظام نہیں کرسکی

بلکہ گمشدگی کا سلسلہ شدت اختیار کررہی ہے۔ اس موقع پر آل پارٹیز کیچ کے کنوینر خلیل تگرانی، نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر مشکور انور ایڈووکیٹ، سابق صدر محمد طاہر، انور اسلم، بی ایس او پجار کے مرکزی وائس چیئرمین بوہیر صالح، پیپلز پارٹی کے رہنما نواب خان شمبے زئی، بی این پی عوامی کے رہنما احد الہی میروزئی، معروف ادیب یوسف عزیز گچکی، ڈاکٹر سمی پرواز، تربت سول سوسائٹی کے کنوینر کامریڈ گلزار دوست و دیگر خواتین اور مردوں نے اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں روز لاقانونیت بڑھتی جارہی ہے،

عوام کے لئے انصاف کا حصول مشکل بن رہا ہے اس کا سبب آمرانہ رویہ اور جمہوریت کے خلاف سازش ہے اسلام آباد جب تک مائینڈ سیٹ نہیں بدلتا ملک خصوصاً بلوچستان کے حالات بھتر نہیں ہوسکتے، وفاق کے لیے بلوچ عوام کی اہمیت سے زیادہ بلوچستان کے وسائل کی اہمیت زیادہ ہے۔ بلوچستان قید خانہ ہے ہر دس قدم پر چیک پوسٹ اور چوکیاں ہیں، پنجاب سمیت ملک کے دیگر بڑے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ طلبہ کی پروفائلنگ کی جاتی ہے ان کو حراساں اور لاپتہ کیا جاتاہے، اسلام آباد کے رویے سے لگتا ہے

کہ بلوچستان کو مفتوحہ علاقہ جیسا ٹریٹ کیا جارہا ہے،ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو کون اٹھاتا ہے، یہ آج سے نہیں بلکہ بھٹو اور ٹکا خان کے دور سے ہورہا ہے، اس دوران مختلف اسکولوں کی طالبات نے بھی گفتگو کی اور کہاکہ تربت کی طالبات ملک کے دیگر تعلیمی اداروں میں آزادانہ پڑھائی کرنا چاہتی ہیں مگر ان کے لیے مناسب اسکالر شپ موجود نہیں ہے۔ مطالبہ ہے

کہ ایکسٹرا اسکالرشپ مہیا کیے جائیں انہوں نے کہاکہ اداروں اور وفاق نے اصل ایشوز سمجھنے کی کوشش نہیں کی، جب تک معاملات کو سیکیورٹی حوالے سے ہٹ کر سیاسی طور پر نہیں دیکھیں گے حالات بہتر نہیں ہوں گے، ہمارے طلبہ سہولت نہ ہونے سے تعلیمی اداروں میں نہیں پہنچ رہے بلوچستان کا بجٹ گزشتہ چار سالوں سے کہاں خرچ ہورہا کسی کو نہیں معلوم، عوامی مینڈیٹ پر شب خون مار کر اسمبلی میں وہ لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں جن کا عوام اور سیاسی معاملات سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔