|

وقتِ اشاعت :   January 14 – 2023

معاہدہ عمرانی کوئی نئی اصطلاح نہیں بلکہ زندہ اور باشعور قوموں میں بدلتے وقت حالات و واقعات کے مطابق نئی پالیسیاں اور پروگرامز مرتب کرنے کا تسلسل ہوتا ہے۔ زندہ معاشرے اور قومیں بدلتے سیاسی و سماجی حالات و واقعات کے ساتھ سیاسی و سماجی رشتوں اور ضروریات زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ سماج کی ترقی و پیش رفت کو روکنا یا نظرانداز کرنا نئے ترقی یافتہ سماج میں جہاں سوشل میڈیا ایک طاقت ور عنصر کے طور پر رونما ہوتا جارہا ہے کائنات گلوبل ولیج کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نئی دنیا میں آنکھیں بند کرنے، طاقت کے استعمال اور زور و زبردستی سے کچھ بھی ممکن نہیں رہا۔ وقت و حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی سماجی ساخت، سماجی رشتوں اور معیشت کا بارہا جائزہ لیکر ازسرنو پالیسی مرتب کرنا چاہیے اور رونما ہونے والے واقعات و مسائل کا ادراک کرتے ہوئے نئے فیصلے کرنے ہونگے۔ اس وقت ہمارے پاس ایک معاہدہ موجود ہے جو طویل سیاسی جدوجہد کے بعد حاصل ہوا ہے وہ ہے 1973 کا دستور پاکستان جس میں بعض بنیادی معاملات بڑی حد تک طے ہوچکے ہیں جس پر پاکستان میں مجموعی طور پر ایک اتفاق موجود ہے۔

اس بات سے میرا اتفاق ہے کہ 1973 کا دستور و معاہدہ قابل عمل ہے لیکن پاکستان میں دستور کی پاسداری کا ریکارڈ بہت مایوس کن ہے ہر طاقتور آمر حکمران نے بے دردی سے اس کی توہین کی ہے اور اسے بوٹوں تلے روند ا ہے۔ پاکستان میں مجموعی طور پر تین دستور عمل میں لائے گئے ہیں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت اسے عبوری طور پر چلایا گیا اور پہلا دستور 1956 میں بنایا گیاجسے اکتوبر 1958 میں مارشل لاء لگا کر معطل کردیا گیا۔ ملک کا دوسرا دستور 1962 میں بنایا گیا جسے سات سال بعد صدر ایوب خان نے خود معطل کردیا۔ تیسرا دستور 1973 میں مرتب کیا گیا جس کو ایک بار 1977 اور دوسری بار 1999 میں مارشل لاء لگا کر معطل رکھا گیا۔ بنیادی طور پر دستور جب مرتب کئے جاتے ہیں تو ان میں یہ گنجائش موجود ہوتی ہے کہ وقت و حالات کے مطابق ان میں تبدیلیاں کی جائیں تاکہ سماج میں موجود سیاسی و سماجی رشتے و تعلقات قائم رہ سکیں۔ 1973 کے آئین کو مرتب کرتے وقت اس بات کی یقین دہانی سیاسی جماعتوں اور قیادت کو کرا دی گئی تھی کہ کچھ عرصہ بعد اس میں مزید تبدیلیاں کر کے قوموں کی خودمختیاری کو یقینی بنایا جائے گا لیکن عملاً ایسا نہیں ہوا کیونکہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل ہی برقرار نہیں رہا۔ 1977 کے بعد طویل مارشل لاء پھر لنگڑی لولی جمہوریت پھر مارشل لاء اسی طرح یہ سلسلہ 2002 تک سلسلہ جاری رہا۔ دستور پاکستان میں 50 سالوں کے دوران مختلف ترامیم کی گئیں، ان میں سب سے بڑی آئینی ترمیم 18 ویں ترمیم کے طور پر سامنے آیا جس میں انتہائی مثبت طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے تمام سیاسی پارٹیوں کے آئینی ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے دو سال تک اس پر کام کرتے ہوئے 114 اہم ترامیم لانیپر اتفاق کیا گیا۔ جس سے 1973 کے آئین کی شکل و صورت زیادہ واضح اور نمایاں ہوا۔ وفاق پاکستان اور قومی وحدتوں کے درمیان سیاسی خلیج میں نمایاں کمی ہوئی جس سے وفاق پاکستان زیادہ مستحکم و مضبوط ہوا۔ آئین پاکستان میں فوجی آمروں نے جو غیر ضروری و غیر جمہوری ترامیم کیں تھیں ان کو ختم کردیا گیا۔ پاکستان میں دستور عملًا ایک وفاقی فیڈریشن کی جانب گامزن ہوگیا۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ دستور پاکستان میں طے شدہ معاملات پر کس قدر عملدرآمد ممکن ہوا اور جن معاملات پر اتفاق تھا ان پر عملدرآمد میں پس و پیش سے کیوں کام لیا گیا۔ دوسری بڑی بات ہے کہ اب ہم جیسے سیاسی کارکنوں اور سیاسی پارٹیوں کا عملًا اب کوئی کردار ہمیں نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جن سیاسی اور آئینی معاملات اور مسائل پر ہم گفتگو کررہے ہیں وہ پاکستان کے حکمران طبقات کی سوچ و فکر سے یکسر مختلف ہیں۔ ان کی ترجیحات مختلف ہیں اس وقت پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کا مطالعہ کریں تو اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے جن افراد کو متعین کیا ہوا ہے وہ انھیں معاملات اور مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اگر آپ عملًا ان کا کردار اور ترجیحات کا مطالعہ کریں تو وہ یکسر ہمیں مختلف نظر آتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی عمل میں بے جاہ مداخلت نے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان اس وقت شدید سیاسی، معاشی اور انتظامی بحران میں مبتلا ہے لیکن اس کے باوجود پولیٹیکل انجینئرنگ کا عمل جاری ہے۔ پاکستان کی طاقتور مقتدرہ ملک کے حقیقی مسائل و مشکلات پر نظر رکھنے کے بجائے اندرونی سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف نظر آرہی ہے۔ پاکستان کے خفیہ ادارے دہشت گردی کے بجائے سیاسی پارٹیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مقتدرہ کی غلط ترجیحات کے پیش نظر ملک شدید معاشی بدحالی کا شکار ہوچکا ہے۔ مقتدرہ کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے حاصل ہونے والے قرضوں اور دیگر معاملات پر نظر رکھنی چاہئے تھی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مقتدرہ عملًا ملک کی معاشی تنزلی میں سیاست دانوں کے ساتھ حصہ دار ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں ملک کے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے حاصل قرضوں میں 80 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ قرضے کن مدات میں استعمال ہوئے، ابھی تک یہ صیغہ راز بنا ہوا ہے۔ ملک میں اس وقت قانون کی حکمرانی ختم ہوتی جارہی ہے، نظام انصاف دم تھوڑ چکا ہے، ریاست کی حکمرانی کہیں نظر نہیں آرہی ہے، پاکستان پر مختلف مافیاز کا راج ہے، اسلحہ کلچر اور امن و امان کی صورتحال سنگین شکل اختیار کرچکی ہے، لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا کی سرپرستی کی جارہی ہے اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان طاقتور مافیا زکو ملک کی سیاسی پارٹیوں اور پارلیمنٹ پر مسلط کیا جارہا ہے۔ ملکی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے ان بنیادی معاملات کے بجائے ملک کا طاقتور حلقہ سیاسی جوڑ توڑ سے فارغ نہیں حالانکہ طاقتور حلقوں کی جانب سے واضح اعلانات کے باوجود ایسا کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ اس وقت پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے بلکہ عملًا ڈیفالٹ کرچکا ہے۔