|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2023

ملک میں اس وقت جو سیاسی صورتحال پیدا ہورہی ہے اس سے اکثریت جماعتوں کی سیاست بند گلی میں پہنچ گئی ہے اور اس صورتحال میں بڑی جماعتیں فریسٹریشن کا شکار ہو رہی ہیں اور اپنی سیاست کو اس مقام پر لے آئیں ہیں کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ بقا کی آخری جنگ لڑ رہی ہیں، اس دوران ان کے سیاسی فیصلے بھی ان کی فریسٹریشن کو ظاہر کررہے ہیں ۔تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفوں نے ان کی ایوان میںآواز ختم کردی تھی اس وقت عمران خان کا یہ خیال تھا کہ وہ عوامی دبائو کے ذریعے حکومت کو مجبور کردیں گے کہ وہ جلد انتخابات کرانے پر تیار ہو جائے گی، دو لانگ مارچ اور بڑے بڑے جلسوں کے باوجود وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔

اس دوران ان کے بیانیے میں مسلسل تبدیلی نے بھی ان کو بند گلی کی طرف دھکیلنا شروع کردیا،قومی اسمبلی سے باہر نکلنے کے فیصلے کی غلطی کا احساس ہوتے ہی عمران خان نے اسمبلی میں واپس جانے کا فیصلہ کیا لیکن اس میں بہت تاخیر ہوچکی تھی ،ان کے مشیروں نے ایم کیوایم کی وفاق سے ناراضگی سے یہ اندازہ لگایا کہ ایم کیو ایم حکومت سے الگ ہوجائے گی اور شہباز شریف ایوان میں اکثریت کھو دیں گے ،اس صورتحال میں صدر شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں گے اور اسمبلی ٹوٹ جائے گی۔ اس صورت میں ایوان میں واپس جانے سے حزب اختلاف کا عہدہ تحریک انصاف کے پاس آجائے گااور نگران سیٹ اپ میں تحریک انصاف شامل ہوجائے گی لیکن شاید ان کے مشیروں نے انہیں نہیں بتایا کہ شہباز شریف اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکے تو بھی اسمبلی تحلیل نہیں ہوگی اور رن آف الیکشن کے ذریعے نیا وزیراعظم منتخب ہوجائے گا تاہم حکومت نے عمران خان کا یہ معصومانہ اقدام بھی الٹ دیا اور ایسے وقت میں استعفے قبول کئے جب جنرل الیکشن میں بہت کم وقت رہ گیا ہے اورپی ڈی ایم نے ان ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ وفاق میں حکومت نہ ہوتے ہوئے بھی ملک بھر میں تحریک انصاف مضبوط پوزیشن میں تھی پنجاب ،خیبرپختونخواہ ، کشمیر اورگلگت بلستتان میں ان کی حکومت تھی فوری انتخابات کی خواہش میں عمران خان نے پنجاب اور کے پی کے کی حکومتیں تحلیل کردیں، پارٹی ذرائع کے مطابق اندرونی مخالفت کے باوجود عمران کی ضد کامیاب ہوئی اورانہوں نے اپنے دو بڑے مضبوط گڑھ ہاتھ سے نکال دئیے ۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ نے تو دبے الفاظ میںشکوہ بھی کیا کہ عمران خان کو منع کرنے کے باوجودووہ تین مشیروں کے کہنے میںآگئے اور ایک مشیر کا تو حوالہ بھی دیا کہ وہ گرفتار ہوگئے ہیں، اگر پہلے گرفتار ہوتے تو شاید صوبائی اسمبلی نہ ٹوٹتی۔عمران خان کے سیاسی فیصلے انہیں بند گلی کی طرف دھکیل رہے ہیں لاہور میں ثالثی کے لئے صدر عارف علوی کی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں اور ان کو بھی کہنا پڑا کہ فوری الیکشن چھوڑ کر صرف انتخابات پر بات کی جانی چاہیے جبکہ انہوں نے شہباز شریف کی اکثریت ختم ہونے کی بات پر کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اکثریت ختم ہوئی ہے۔ پرویز الٰہی سے قبل فیصل وائوڈا بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کے قریب ان کے مشیر انہیں گمراہ کررہے ہیں وہ تو اس حد تک چلے گئے کہ ان مشیروں کو سانپ اور سنپولے تک کہہ دیا۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی انتظامیہ کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد عمران خان نے اب صوبائی انتخابات پر بھی شکوک کا اظہار شروع کردیا ہے، حکومت سے نکلنے کے بعد بھی ان کے بیانیے میں مسلسل تبدیلی آرہی ہے اور صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہ اب خود کو بند گلی میں محسوس کررہے ہیں،

اب وہ بیرونی سازش سےآگے بڑھ کر اپنے قتل کی سازش کے ذریعے عوام کو متحرک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بند کمرے میں قتل کی سازش کے بیانیے میں سابق فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ ان کا ہدف تھے لیکن اب اچانک عمران خان نےآصف علی زرداری کو بھی قتل کی سازش کا ملزم قرار دے دیا ہے اور فوج کے اے پولیٹکل ہونے پر بھی شکوک کا اظہار شروع کردیا ہے جس سے ان کی فریسٹریشن ظاہر ہورہی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) بھی مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی کے باعث بند گلی میںآچکی ہے، معیشت کے جادوگر کے طور پرمشہور اسحاق ڈار ابھی تک کوئی چمتکار نہیں دکھا سکے۔آئی ایم ایف کے چنگل میں بری طرح پھنسی ہوئی معیشت لڑکھڑا رہی ہے اور آئی ایم ایف کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آرہی۔ سیلاب اور ہوشربا مہنگائی نے عوام کو مشتعل کرنا شروع کردیا ہے، اسحاق ڈار نے تو اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے معاملات کا ٹھیک ہونا اللہ پر چھوڑ دیا ہے ۔اب صوبائی ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی آخری امید مریم نواز رہ گئی ہیں جو لاہور پہنچ گئی ہیں اور انہوں نے اپنے والد نواز شریف کی جلد واپسی کا بھی اعلان کردیا ہے۔

یہ بھی مسلم لیگ(ن) کی ترپ کاآخری پتہ ہے جبکہان کو پارٹی کی سینئر قیادت میں اختلاف کا بھی سامنا کرنا پڑے گا لیکن مہنگائی کے جن کو قابو میں کئے بغیر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی ۔آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے ہونے والی صورتحال نے حکومتی اتحاد کو بھی بند گلی میں داخل کردیا ہے، دعوئوں کے باوجود کوئی صورت نہیں نکل رہی حکومت کے غلط معاشی فیصلوں اور مارکیٹ مافیا نے عوام کو بے بس کردیا ہے اور کوئی بھی ہلکی چنگاری ملک کو بدترین فساد کی جانب لے جاسکتی ہے جو کہ کسی بھی لیڈر شپ کے بغیر ہوگی۔ روس سے سستا تیل لینے کے دبائو نے موجودہ حکومت کو روس سے مذاکرات کے لئے تیار تو کردیا لیکن اس سے لگتا یہ ہے کہ سعودی عرب کو یہ عمل اچھا نہیں لگا اور انہوں نے پاکستان کی امداد کو معاشی اصلاحات سے مشروط کردیا جو کہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں جبکہ بظاہر امریکہ نے روس سے تیل لینے پر اعتراض نہیں کیا لیکن اس کا بھی تیل کی قیمت پر اعتراض ہے اب دیکھنا ہوگا کہ سیاست دان اس بندگلی سے کیسے نکلتے ہیں؟