|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2023

کراچی کے علاقے مواچھ گوٹھ میں بتدریج 15 دنوں میں بچوں سمیت 19 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ بنیادی طور اس افسوسناک امر کی وجہ خسرہ کی بیماری اور علاقے میں موجود صنعتی آلودگی بتائی جارہی ہے ۔
واقعہ پر حکومت سندھ حرکت میں آگئی اور علاقے میں میڈیکل ٹیمیں روانہ کی گئیں ۔ اور واقعہ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ۔
علاوہ ازیں سْیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کا سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ صورتحال کا جائزہ لینے اور متاثرہ خاندانوں کی داد رسی کے لیے علاقے کے ایم پی اے اور مشیر لیاقت علی آسکانی ، وزیر بلدیات ناصر علی شاہ ، آصف خان ، شہزاد میمن ، صدر پی ایس 112 موسٰی مینگل ،یوسی وائس چئیرمینز پرویز دودا ، عثمان پڑھیار ، حسام غنی و دیگر سمیت پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر علیم عادل شیخ نے دورہ کیا ۔
دریں اثنا حکومت سندھ کی جانب سے متاثرہ خاندانوں کی مالی معاونت کا اعلان بھی کیا گیا ہے ۔
محکمہ صحت کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلع کیماڑی کے علی محمد گوٹھ میں 20 یوم کے دوران 18 اموات ہوئیں، محکمہ صحت اور ادارہ ماحولیات کی ٹیموں نے 26 سے 28 جنوری کے دوران علاقے میں سیمپلز حاصل کئے، تین دن معاملے کی تحقیقات کیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علی محمد گوٹھ میں مجموعی طور پر 935 رہائشی ہیں، جن کے خون اور بلغم کے نمونے لئے گئے، کرونا ٹیسٹ کئے گئے اور سینے کے ایکسرے بھی کئے۔
رپورٹ کے مطابق علاقے میں موجود پانی کے نمونے بھی حاصل کرلئے گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے نتیجے میں اب تک ٹیمیں دو نتائج پر پہنچی ہیں، پہلا نتیجہ یہ ہے کہ ہلاکتیں خسرہ اور اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوئیں جبکہ دوسرا نتیجہ فیکٹریوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خسرہ کیلئے بچوں کے نمونے این آئی ایچ اور ماحولیاتی نمونوں کی جانچ کیلئے نجی لیب کو بھیجے گئے ہیں، ہلاک ہونے والوں میں سب سے زیادہ 2 سے 4 سال کی عمر کے بچے ہیں، متاثر ہونے والوں کو بخار، کھانسی، سینے میں تکلیف اور سانس لینے میں مشکلات تھیں۔
رپورٹ کے مطابق بچوں میں نمونیہ سے ملتی جلتی علامات تھیں، آنکھوں کا سرخ ہونا، آنکھوں میں جلن، منہ کا خشک ہونا، سر درد، متلی، پیٹ میں درد بھی شامل ہیں۔
محکمہ صحت سندھ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ علاقے میں مجموعی طور پر 49 متاثرین تھے جن میں 15 کی اموات ہوئیں، 26 متاثرین 6 گھروں میں رہتے تھے جو فیکٹریوں کے قریبی رہائشی ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق متاثرین میں 40 افراد 11 سال سے کم عمر کے تھے، ان تمام افراد کو حفاظتی ٹیکے نہیں لگائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق جب ٹیمیں وہاں پہنچیں تو علاقے میں شدید بدبو تھی، تمام مرنے والے لوگ فیکٹریوں کے قریب کے رہائشی تھے، جہاں پلاسٹک، ربر، پاؤڈر، پتھر اور آئل کی غیرقانونی فیکٹریاں ہیں۔
تحقیقات کے دوران پتہ چلا ہے کہ 5 جنوری سے شروع ہونے والی فیکٹری کے نتیجے میں علاقہ مکینوں کو اچانک سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا، فیکٹریوں کی بندش کے بعد 26 جنوری سے محسوس کیا گیا کہ فضاء میں بدبو نہیں ہے۔
محکمہ صحت سندھ نے خسرہ کی وباء اور زیریلی گیسز پر شک کے باعث خون کے نمونوں اور ماحولیاتی نمونوں کی بھی جانچ کروائی ہے، حتمی رپورٹ کا انتظار کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ ضلع کیماڑی میں مواچھ گوٹھ کا علاقہ علی محمد محلہ مزدور پیشہ افراد کی چھوٹی سی بستی ہے ۔ اس غریب بستی کے مکینوں کا زریعہ معاش مزدوری ہے ۔ خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ اس بستی کے اطراف چھوٹی چھوٹی صنعتیں ، کارخانے اور گودام موجود ہیں ۔ جن میں کام کرنے والے بیشتر افراد کا تعلق اسی بستی سے ہے ۔
حکومت کی جانب سے علاقے میں موجود بیشتر فیکٹریوں کو سیل ( معلوم نہیں کہ عارضی طور پر یا مستقل ) کیا جا چکا ہے ۔ جس سے یقینی طور پر اس علاقے کے مزدور مکینوں کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ کیونکہ اب تک غالب گمان یہ ہے کہ اموات خسرہ کے باعث ہوئی ہیں ۔
اس معاملے میں چند غور طلب باتیں سامنے آتی ہیں کہ اگر اموات صنعتی آلودگی کے باعث ہوئی ہیں تو موسوائے چار مکانوں کے پورے علاقے میں اس کے اثرات نظر کیوں نہیں آئے ؟ اور ان صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور کیوں متاثر نہیں ہوئے ؟
روزِ اول سے آبادی کے درمیان صنعتیں لگانے یا کارخانے کھولنے کی اجازت کیوں دی گئی ؟
سیل شدہ کارخانے دو چار مہینے گزرنے کے بعد کھول دیے جائیں گے یا مستقل طور پر بند کیے جائیں گے ؟
اگر خسرہ کی وجہ سے اموات ہوئی ہیں تو محکمہ صحت کی طرف سے غفلت کیوں برتی گئی ؟
ان مصائب سے بھرپور صورتحال میں علاقہ مکین دوہری تشویش میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔ اول یہ کہ انھیں دوبارہ ایسی وبا کا سامنا کرنا نہ پڑے ۔ دوم یہ کہ اگر علاقے میں موجود کارخانے بند کیے گئے تو وہ معاشی طور پر مارے جائیں گے ۔
یقینی طور پر ان صنعتوں اور کارخانوں کو بند کرنا غریب مزدوروں کا معاشی قتلِ عام کے مترادف ہوگا ۔ دوسری جانب ان کی قیمتی جانوں کا تحفظ بھی ضروری ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سندھ اور ضلعی انتظامیہ ان صنعتوں اور کارخانوں کو بند کرنے کی بجائے انھیں پابند کریں کہ وہ صحت بخش اور ماحول دوست طریقے سے کاروبار کو یقینی بنائیں ۔ اردگرد کے ماحول کو صاف اور آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ شجر کاری کریں اور ساتھ ساتھ دیگر صحت مَنْد سرگرمیوں کا عمل یقینی بنائیں ۔