|

وقتِ اشاعت :   February 21 – 2023

پاکستان میں آمریت کے ساتھ سیاسی عدم استحکام نے امن و امان کی صورتحال کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ ملک کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان اور اس کے مشترکہ سرحدی ممالک کے سرحدی علاقوں کو ہمیشہ سے جنگی علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ خطہ جنگ اور جھگڑوں سے انتہائی متاثر ہیں۔
روس کے حملے، افغانستان میں امریکی راج، سیاست میں ڈرامائی تبدیلی، طالبان کا عروج، مختلف شورشوں کا عروج اور بیس سٹیشن کے کردار نے اس خطے کو مختلف حالات میں الجھا کر رکھ دیا ہے جس کا براہ راست اثر امن و امان پر پڑا ہے۔ مختلف سیاسی، جیو پولیٹیکل، اور جنگ کا احاطہ کرنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شورشیں ایسی غیر یقینی صورتحال کے دوران شروع ہوئیں۔ بلوچستان میں مختلف ادوار میں مختلف شورشیں شروع ہوئیں اور ختم ہوئیں۔ مختلف شورشوں کی مختلف حکمت عملی، شکایات اور اہداف تھے۔
بلوچستان میں پہلی شورش
بلوچستان میں پہلی شورش کی قیادت آغا عبدالکریم نے کی۔ وہ خان آف قلات کے چھوٹے بھائی اور مکران کے گورنر تھے۔ پہلی شورش 1948 میں اس وقت شروع ہوئی جب خان آف قلات میر احمد یار خان کے ساتھ الحاق کے معاہدے کے ذریعے ریاست قلات کو پاکستان میں شامل کیا گیا یا ملایا گیا (تاریخ میں الحاق کا معاہدہ ابھی تک متنازعہ ہے)تو آغا اس کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ برصغیر کے برطانوی دور میں آغا ایک عظیم سیاسی کارکن بھی تھے اور برصغیر میں برطانوی راج کے خلاف مزاحمتی سیاست میں بھی سرگرم رہتے تھے۔مختصر عرصے میں اس نے افغانستان میں گوریلا اڈہ قائم کیا اور پہلی ڈیمانڈ لسٹ نوزائیدہ مملکت کو بھیج دی۔ اس شورش کی بنیادی وجہ ریاست کی اعلیٰ ترین طاقت اور خودمختاری کا کھو جانا تھا۔ میجر جنرل اکبر خان، ایک فوجی افسر کو ان سے مذاکرات کا ٹاسک ملا۔ باغیوں نے قلات میں ڈیرے ڈالے اور پرامن مذاکرات کا انتظار کر رہے تھے لیکن حکومت نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے آغا کو اپنے 142 ساتھوں کے ساتھ گرفتار کر لیا۔ حکومت نے ان سے مذاکرات کا جھوٹا وعدہ کیا تھا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اس وقت کے گرینڈ جرگے کی پیش کردہ رائے کو مسترد کرتے ہوئے آغا کو 10 سال قید اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی۔ آغا کے گرفتار پیروکاروں کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔ مذاکرات کے نام پر ان سے ہتھیار رکھوانا حکومت کے لیے ایک آسان کام تھا لیکن یہ بہت بڑی غلطیوں میں سے ایک تھا۔ شکایتوں کی کہانی یہیں سے شروع ہوئی۔
بلوچستان میں دوسری شورش
بلوچستان میں دوسری شورش کی قیادت نواب نوروز خان نے 1958 سے 1959 تک کی۔ یہ ایک خونریز تصادم تھا۔ اس شورش کی بنیادی وجہ ون یونٹ پالیسی کا نفاذ تھا جس کی پاکستان میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے مخالفت کی تھی۔ خان آف قلات نے اسکندر مرزا کی جانب سے کراچی میں بلائے گئے وضاحتی اجلاس سے انکار کر دیا۔ انکار کے بعد خان آف قلات کو گرفتار کر کے لاہور لے جایا گیا۔ اس کی گرفتاری کے تنازعہ میں اس کے بہت سے ساتھی مارے گئے۔ اسی دوران ملک میں مارشل لاء لگا۔ اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں اور پاکستان کا پہلا آئین منسوخ کر دیا گیا۔ ان حالات میں نواب نوروز خان نے ریاست قلات کی بحالی کے لیے مسلح جدوجہد شروع کی اور ون یونٹ پالیسی کی مخالفت کی۔ ایک بار پھر مذاکرات کے نام پر ملاقات کے دوران نواب اور ان کے بیٹوں اور پیروکاروں کو حراست میں لے لیا گیا۔ 1960 میں نواب کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ چار سال کوہلو جیل میں رہنے کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ ایک دور کا خاتمہ تھا لیکن بلوچستان میں شورشوں کا نہیں۔
بلوچستان میں تیسری شورش
بلوچستان میں تیسری شورش کی قیادت شیرمحمد مری نے 1962 سے 1969 تک کی۔ اس بار باغیوں نے براہ راست مرکزی حکومت اور فوجی دستوں کا مقابلہ کیا۔ اس کی قیادت کرنے والے شخص کو شیرو کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور وہ ایک ادیب، دانشور اور سیاسی کارکن تھا۔ اس عرصے کے دوران باغیوں نے بلوچستان بھر میں ریلوے ٹریکس اور چیک پوسٹوں پر حملہ کیا۔ مری قبیلے کے سربراہ خیر بخش مری نے بھی اس شورش کے دوران ایک مسلح عسکریت پسند گروپ کو اکٹھا کرکے شیرو کی مدد کی۔ شورش اس وقت بڑھی جب مرکزی حکومت نے قبائلی سربراہوں کی سرداری کے اختیارات چھین لیے جس میں مینگل، بگٹی اور مری قبائل شامل تھے۔ مسلح حکمت عملی نے مرکزی حکومت کو الجھا دیا۔ مرکزی حکومت نے بلوچ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا اور باغیوں سے ہتھیار ڈالنے کی تقریب کا مطالبہ کیا۔اس درخواست کو مسترد کر دیا گیا اور ایک اعتماد جو باغیوں اور ریاست کے درمیان قائم کرنا تھا ناکام ہوا ۔مرکزی حکومت کے حکم پر ایک بار پھر ممتاز بلوچ سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ جنرل یحییٰ خان کا دور تھا۔ آخر کار وان یونٹ پالیسی ختم کر دی گئی اور 1970 میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ مل گیا۔ بالآخر باغی جنگ بندی پر راضی ہوگئے اور بلوچستان میں تیسری شورش کا خاتمہ ہوگیا۔
بلوچستان میں چوتھی شورش
بلوچستان میں چوتھی شورش کی قیادت ہزار خان اور اس کے ساتھیوں نے 1972 سے 1977 تک کی۔ یہ وہی دور تھا جب بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہوگیا تھا اور 1971 کا حادثہ ابھی تازہ تازہ تھا۔
معیشت اور سیاسی عدم استحکام کو بھی چوتھی شورش کااہم عنصر سمجھا جاتا ہے۔ اسی شورش کے دوران نواب خیر بخش مری نے ایک مسلح تنظیم بنائی اور گوریلا جنگ شروع کی۔
بلوچستان میں پانچویں شورش
2004 سے اب تک بلوچستان میں پانچویں شورش کی قیادت نواب اکبر بگٹی اور میر بالاچ مری نے کی۔ بلوچستان میں یہ شورش بدستور جاری ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء اور مختلف سیاسی جماعتوں اور قیادتوں پر پابندی لگائی ۔اسی دور میں نواب اکبر خان بگٹی نے بلوچستان میں معدنیات، تیل اور گیس کے مسئلے پر مزاحمتی تحریک شروع کی جس کی وجہ صوبے کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا تھا۔ دونوں طرف کی طاقت نے شورش کو بڑھاوا دیا اور اسی دوران باغیوں کے نظریات اور پالیسیوں میں تبدیلی بھی ریکارڈ کی گئی۔ نواب کی شہادت نے شورش کو مہمیز دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کئی بار مرکزی حکومت نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں بنائیں لیکن دونوں طرف سے کسی نے دلچسپی نہیں دکھائی اور بلوچستان میں ابھی تک امن نہیں آسکا ہے۔

بھوک سے درندگی تک
تحریر۔۔۔ محمد صدیق مینگل
کسی بھی حکومت کی ذمہ داریوں میں سرفہرست یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس ملک کے رہنے والے لوگوں کی جان اور مال کی حفاظت کرکے ان کو امن سے جینے کا ماحول فراہم کرے ا ور اگرکوئی حکومت اس ملک میں رہنے والوں کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوتی ہے، تو اس گروہ کو حکمرانی کر نے کا اخلاقی حق نہیں پہنچتا۔ امن قائم کرنے کے لئے فورسز کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے ان کی تربیت کی جاتی ہے ان کو مسلح کیا جاتا ہے ان کو جاسوسی آلات سے لیس کیا جاتا ہے خفیہ کیمروں کی تنصیب کی جاتی ہے فضاؤں کی نگرانی کے لئے ائیر فورس بنائی جاتی ہے سمندری حد ود کی نگرانی کے لئے بحری فورسز و بیڑے تیار کئے جاتے ہیں، ان سب چیزوں کی ضرورت مسلمہ ہے کیونکہ ایک مستحکم حکومت کو ان سب چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے، جدید فورسز اور ان کو جدید آلات سے لیس نہ کرنے کی صورت میں ملک کے امن و سلامتی کوبہر صورت خطرات لاحق ہوجا تے ہیں، لیکن اگر ہم اس زاویہ میں کتاب مبین کا مطالعہ کرتے ہیں تو قر آن کریم امن سے پہلے معیشت کی بات کرتی ہے ارشادخداوندی ہے مخاطبین اول قریش اور پھر رہتی دنیا کے لوگ ہیں ۔ترجمہ: (اس رب کی عبادت کرو جو تم کو بھوک میں کھانا اور خوف میں امن دیتا ہے) ۔اگر حکمرانی کرنے والے لوگ قر آن کریم کے اس لطیف اشارہ کو سمجھ جائیں تو سارے مسائل حل ہوجائیں۔ اپنے ملک کے باشندوں کو دو وقت کی روٹی کے ساتھ بنیادی انسانی ضروریات مہیا کریں تو امن قائم کرنے کا 75 فیصد معمہ خود بخود حل ہوجاتا ہے ،شکم سیر مطمئن قوم غلط چیزوں کی طرف بہت کم جاتی ہے۔ چوری ،دہشت گردی ،قتل و غارت گری کے اسباب میں محرومیت ،بھوک ،معاشی ناہمواری، ظلم و بر بریت ہمیشہ سر فہرست رہی ہے، یہ سب کہنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں لیا جائے کہ تمام کے تمام جرائم بھوک افلاس اور محرومی کی کو کھ سے جنم لیتے ہیں۔ یقینی طور پر کچھ لوگ بد مستی، شوخی، غرور تکبر اوراپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ایسے ہی جرائم کو کنڑول کرنے کے لئے قانون قدرت الٰہی میں حدود الٰہی ہیں اور مختلف مذاہب و اقوام بھی ان جرائم کو کنٹرول کرنے اور جرائم پیشہ افراد کی سر کوبی کے لئے قوانین بناتی ہیں،لیکن اگر آپ شیخ سعدی کی بات سے اتفاق کریں گے تو آپ فرماتے ہیں کہ (بارعیت صلح وز جنگ خصم ایمن نشین) زانکہ شہنشاہ عادل را رعیت لشکر است) اپنی رعیت کے ساتھ صلح کرو اور دشمن کی لڑائی سے بے خوف ہوجا ؤ کیونکہ شہنشاہ عادل کے لئے رعیت لشکر ہوتا ہے اور اگر ہم خلفا ء ِ راشدین کے مثالی دور کا مطالعہ کرتے ہیں جس دور کو امن و بھائی چارگی کے اعتبار سے مثالی دور کہا جاتا ہے تو اس مثالی دور میں بھی داخلی خارجی فورسز رعیت ہی تھیں۔ مستقل فوج اور پولیس فورسز نہیں ہوتی تھیں۔ ماضی کی تاریخوں کو چھوڑ دیں ریزہ ریزہ ہونے والا سویت یونین اس کی سب بڑی مثال ہے بین البرِ اعظم میزائلوں سے لیس اور سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیاروں کے مالک سویت یونین کو ٹکڑے کرنے میں اصل سبب اس کی خراب معیشت تھی، اور پھر عقل کی دوائی پینے کے بعد یہ حقیقت بھی سمجھ آجاتی ہے کہ سرحدوں کے پار سے آنے والے دشمنوں سے فورسز اور خود حکرانوں سے مطمئن عوام نمٹ سکتی ہے۔ لیکن اگر بھوک کے مارے لوگ بغاوت پر اتر آتے ہیں توان کو کنڑول نہیں کیا جا سکتا ۔کسی بھی قوم کی تربیت میں زود اثر ہدایات اللہ جل جلالہ اور اس کے رسول کے ثابت ہوئے ہیں لیکن محمد رسول فرماتے ہیں فقر کفر کا سبب بن جاتا ہے، پنجرہ میں بند بھوکا شیر جنگل کے شیروں سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور انسان بھی بنیادی طور درندوں کی اوصاف رکھتا ہے۔ بھوک اور محرومی میں اس کی درندگی کئی سو گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی کرپشن ،معاشی بے راہ روی سے اس ملک کے رہنے والوں کو درندہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور اب جبکہ ملک میں معاشی حالات انتہائی خراب ہیں تب بھی ہمارے اختیار دار ان بھو کے انسانوں کے جذبات سے خطرناک کھیل کھیلنے سے باز نہیں آرہے ہیں ۔ملک اس وقت سخت ترین معاشی مشکلات سے دو چار ہے ملک میں مہنگائی کی شرح پانچ سو فیصد ہے کیونکہ گزشتہ پانچ سالوں میں ہر سال 100 فیصد چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے یوں پانچ سالوں میں پانچ سو فیصد مہنگائی ہو گئی ہے، اب بات یہاں تک پہنچی ہے کہ آٹے کے سوکلو کی بوری 14 ہزار روپیہ کا ہے اور درجہ چہارم کے ایک ملازم کی تنخواہ30000 ہزار روپیہ بن جاتی ہے اور اگر کوئی شخص جمعہ اتوار کے ناغہ کئے بغیر صبح سے لیکر شام تک دہاڑی کرے، تو بھی پانچ سو روپیہ روزانہ کی دہاڑی سے ان کے پورے مہینہ کی دیہاڑی 15000 ہزار روپیہ تک بن جاتی ہے۔ قدرت کی تقسیم میں یہ بھی ہے کہ غریبوں کا گھرانہ بڑا ہوتا ہے اور اگر دس افراد کا ایک گھرانہ صرف سوکھی روٹی کھائے تو تب بھی اس کی ضرورت سو کلو کا دو بوری آٹا بن جاتی ہے تو اس شخص کی باقی انسانی ضرورتیں کہاں سے پوری ہونگیں۔ میرے منہ میں خاک،کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ بھارت اور دیگر دشمن ممالک کے ایجنڈے کی تکمیل ہمارے با اختیار لوگ خود کرنے جارہے ہیں کہیں میر جعفر اور میر صادق کی تاریخ کو دہرانے والے اس ملک میں زیادہ با اختیار تو نہیں ہورہے ہیں۔۔ فالی اللہ المشتقی ٰ