|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2023

پاکستانی معیشت کو چلانے کے لیے آئی ایم ایف سمیت دوست ممالک سے مدد لی جاتی رہی ہے ،دہائیاں بیت گئیں مگر ملک کو معاشی حوالے سے خود کفیل کرنے سے متعلق کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ ملک میں شفاف ٹیکس کا نظام موجود نہیں، پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری پر توجہ نہیں دی گئی، عالمی مارکیٹ تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی بھی کمزور رہی۔ ایسے ہی بہت سے مسائل کی وجہ سے آج ملکی معیشت اس موڑ پر پہنچ چکی ہے کہ تمام تر زور قرض لینے پر لگاہوا ہے۔

سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے جو بھی کارنامے انجام دئیے وہ اپنی جگہ مگر جب موجودہ حکومت نے بھاگ ڈور سنبھالی تو یہ بتایاگیا کہ جلد ہی ملکی معیشت کو بہتر سمت لے جایا جائے گا،معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پراقدامات اٹھائے جائینگے ۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے یہ نوید بھی سنادی کہ یہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارا آخری ڈیل ہوگا اس کے بعد ہم قرض نہیں لینگے بلکہ اپنی معیشت کے ذریعے ملک کو چلائینگے لیکن اب تک صورتحال واضح نہیں ہے جس سے معاشی صورتحال روز بروزابتر ہوتی جارہی ہے اور آئی ایم ایف کی قسط پر آنکھیں لگی ہوئی ہیں جو پچھلے کئی ماہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ گزشتہ روز وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے کہا کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ مجھے آئی ایم ایف نے منع کر دیا ہے، مجھے آئی ایم ایف منع نہیں کر سکتا، پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا ممبر ہے کوئی بھکاری نہیں ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ وزارت خزانہ کی اہم ذمہ داری پیسوں کے حوالے سے ہے، سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے دینے کا کہا ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے وفاقی حکومت کو رقم فراہم کرنے کے لیے 10 اپریل کی مہلت دی گئی ہے، عدالت نے الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت بھی دی کہ 11 اپریل تک پیشرفت سے آگاہ کیا جائے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ مجھے امریکا پہنچنا تھا، ورلڈ بینک سے اسپرنگ میٹنگ میں شرکت کرنی تھی لیکن آئی ایم ایف اجلاس سے متعلق میڈیا پر قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں، آئی ایم ایف کی اپریل میں اسپرنگز اور سالانہ میٹنگز ہوتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آئینی بحران کی کیفیت ہے، بحیثیت قوم ہم ایک بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں، وزیراعظم کے کہنے پر میں نے دورہ امریکا ملتوی کر دیا ہے، ملکی حالات کے پیش نظر واشنگٹن میں میٹنگز میں ورچوئل شرکت کروں گا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا اہم قومی معاملات پر لوز ٹاک اور لوز تجزیہ مناسب نہیں ہے، مشکل معاشی حالات کے باوجود کوئی ایک بھی بین الاقوامی ادائیگی میں ایک منٹ بھی تاخیرنہیں کی، پاکستان نے 11 ارب ڈالر کی عالمی ادائیگیاں کی ہیں، آئی ایم ایف کی جتنی کیوریز آئیں سب کا تسلی بخش جواب دیا ہے، آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہونے والا ہے، ایک دوست ملک آئی ایم ایف کو 2 ارب ڈالر کی ادائیگی کی تصدیق کر چکا ہے اور ایک دوست ملک کی جانب سے ایک ارب ڈالر کی تصدیق کا انتظار ہے۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ2017 میں مسلم لیگ ن نے پاکستان کو 24 ویں معیشت بنا دیا تھا لیکن پچھلی حکومت نے پاکستان کو 24 ویں معیشت سے 47ویں معیشت بنا دیا، پاکستان اس بھنور سے نکلے گا، پاکستان کو دوبارہ سے 24ویں معیشت بنانے کی طرف لے جائیں گے۔بہرحال جس طرح سے ہم نے معیشت کو چلایاہے دنیا ہمیں اسی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔

بار بار کسی بھی ملک اور آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرنے سے منفی تاثر جاتا ہے اسے تسلیم کرنا چاہئے اور اس کڑوے سچ کو ماننا چاہئے کہ ہمیں جن نظروں سے دیکھا جارہا ہے وہ مناسب نہیں ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں کہ آئی ایم ایف کے مزیدشرائط کیا ہیں کس وجہ سے قسط میں تاخیر ہورہی ہے حکومت بتانے سے قاصر ہے ۔ بہرحال جو بھی معاملات ہیں وہ عوام کے سامنے کھل کر رکھے جائیں تاکہ عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے فیصلہ کیاجائے مگر ایسا کچھ نہیں کیاجارہا ہے صرف یہ بتایاجارہا ہے کہ جلدآئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پاجائینگے اور مستقبل میں ملکی معیشت بہتر ہوجائے گی۔ ملکی ترقی کے لیے سب ہی دعا گو ہیں کہ جلد ہی ان مسائل سے نجات ملے تاکہ عام لوگ جو اس وقت مصیبت میں زندگی گزار رہے ہیں ان کو مہنگائی سے چھٹکار ا ملے اور وہ سکون کا سانس لے سکیں۔