|

وقتِ اشاعت :   April 14 – 2023

وفاق اور عدلیہ کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ملک کے دواہم اداروں کے درمیان جب گھمسان کی جنگ شروع ہوجائے تو یقینا اس کے اثرات نظام پر ضرور پڑینگے اور مستقبل میں اس کے نتائج بھی برآمد ہونگے۔ بہرحال قانونی اور آئینی حوالے سے دونوں ادارے ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں۔

وفاقی حکومت نے چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس کے معاملے کو محدود کرنے کے حوالے سے قانون سازی کی جس پر یہ مؤقف اختیار کیا گیاکہ سپریم کورٹ بطور ادارہ کام کرے ون مین شو کے ذریعے ادارے کو چلانا نہیں چاہئے، ازخود نوٹس لینے پر سینئر ججز پر مشتمل تین رکنی کمیٹی فیصلہ کرے ۔ایک بار صدرمملکت عارف علوی نے بل کو مسترد کردیا دوبارہ پارلیمنٹ نے اسے کثرت رائے سے منظور کیا، بل ابھی نافذ العمل ہوا ہی نہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے 8رکنی بنچ تشکیل دیدی گئی اور اس کی سماعت ہوئی جس پر وفاقی حکومت کا ردعمل واضح طور پر تو آناہی تھا مگر وکلاء برادری کی جانب سے بھی شدیدردعمل سامنے آیا ہے۔

پنجاب میں ہونے والے عام انتخابات کے فیصلے کے معاملے پر وفاق اور عدلیہ کے درمیان ٹکراؤ کا آغاز ہوا ،بجائے اس کا حل کسی صورت نکالاجاتا مگر ایسا نہیں ہوا ۔ بہرحال گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 8رکنی لارجر بینچ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون پر پیشگی حکمِ امتناع جاری کرتے ہوئے تاحکم ثانی کسی بھی انداز اور طریقے سے عمل درآمد روک دیا۔سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی جس کے بعد حکم نامہ جاری کیا گیا۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کا حکم نامہ 8 صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 3 درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کی گئیں، ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس دوران عبوری حکم نامہ جاری کرنا ضروری ہے۔حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت 2 مئی کو ہو گی، حکم امتناعی کا اجرا نا قابل تلافی خطرے سے بچنے کیلئے ضروری ہے، صدر مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں یہ تا حکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کیلئے متفکر ہے، اس ضمن میں مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق کیلئے عدالت کی مداخلت درکار ہے۔

سیاسی جماعتیں چاہیں تو اپنے وکلاء کے ذریعے فریق بن سکتی ہیں۔دوسری جانب حکومتی جماعتوں نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل 2023 پر تاحکم ثانی عمل روکنے کا سپریم کورٹ کا حکم مسترد کردیا ،مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ قانون ابھی بنا بھی نہیں، نافذ بھی نہیں ہوا، ایک متنازع اور یکطرفہ بینچ بنا کراس قانون کو جنم لینے سے ہی روک دیاگیا ہے، عدالتی فیصلہ عدل و انصاف اور سپریم کورٹ کی ساکھ کا قتل ہے۔مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا کہ محض ایک اندازے اور تصور کی بنیاد پر یہ کام کیا گیا، یہ صرف مروجہ قانونی طریقہ کار ہی نہیں بلکہ منطق کے بھی خلاف ہے۔

یہ فیصلہ نہیں،”ون مین شو” کا شاخسانہ ہے، اسے عدالتی تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر جگہ ملے گی یہ اقدام خلاف آئین اور پارلیمنٹ کا اختیار سلب کرنا ہے، یہ وفاق پاکستان پر حملہ اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں پربھی عدم اعتماد ہے، حکمران جماعتیں اس عدالتی ناانصافی کو نامنظور کرتے ہوئے اس کی بھرپور مزاحمت کریں سگی۔مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکمران جماعتیں نظام انصاف میں عدل لانے کیلئے حکمت عملی تیار کریں گی، مشاورت سے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کریں گی تاکہ ملک و قوم کوبحران سے نجات دلائی جائے۔

چیف جسٹس کے اختیارات کے حوالے سے سینئر ترین ججز بھی اپنی رائے دے چکے ہیں اور سب ہی یہی کہہ رہے ہیں کہ فیصلے ایسے ہونے چاہئیں کہ سب کو یہ محسوس ہوکہ یہ یکطرفہ اور جانبدارانہ نہیں ہے۔ البتہ ملک اب جس طرح سے آئینی جنگ کی طرف جارہا ہے اس کے نتائج کچھ اچھے نہیں نکلیں گے بلکہ ایک انتشارکی کیفیت بھی پیدا ہوسکتی ہے اگر کہاجائے کہ اس وقت بھی ایمرجنسی جیسی صورتحال بن رہی ہے تو غلط نہ ہوگا ،ملکی حالات سب کے سامنے ہیں ایک طرف معاشی مسائل تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام اپنی جگہ موجود ہے اب ایک اور محاذ کھل گیا ہے جسے پوری دنیا دیکھ رہی ہے مگراسے ٹھیک کرنے کا راستہ بھی آئینی اداروں کو ہی نکالنا ہوگا ۔بہرحال آنے والے دن ملکی سیاست میں ہنگامہ خیز ہونگے۔