|

وقتِ اشاعت :   April 18 – 2023

27 رمضان المبارک 28 مئی 1987 ء اس دردناک سانحہ کا دن ہے جس دن ملی رہبر تاریخ ساز قومی شخصیت چیف آف سراوان نواب غوث بخش رئیسانی کو شہید کیا گیا جنہوں نے ہمیشہ مظلوم انسانوں کی آزادی ترقی اور خوشحالی چاہی با اصول سیاست دان شہید نواب غوث بخش رئیسانی کی 36 ویں برسی گزشتہ روز انتہائی عقیدت واحترام کیساتھ منائی گئی نواب غوث بخش رئیسانی 1924ء میں بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے کا نک میں نواب سراسد اللہ خان رئیسانی مرحوم کے گھر پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کیلئے ڈیرہ ٹاؤن کے علاوہ کراچی کے گرائمر سکول اور چیفس کالج میں بھی زیر تعلیم رہے۔ نواب غوث بخش رئیسانی کا شمار بلوچستان کی ان چند شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے قوم اورصوبے کی بے لوث خدمت کی نواب غوث بخش رئیسانی اصول پرست، قوت فیصلے کے مالک زندگی کے مقصد و ضرورت اور علاقے کے مسائل سے باخبر باوقار اور پر اعتماد شخصیت کے مالک تھے۔ نواب غوث بخش رئیسانی نے بلوچستان میں تعلیم اور زراعت پر خصوصی توجہ دی اور دونوں شعبوں میں بے شمار خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے بلوچستان میں علم روشنی، اخوت، اتحاد، محبت کو صوبے میں فروغ دیا۔

نواب غوث بخش رئیسانی نے مہر گڑھ پر خصوصی توجہ دی اور وہاں سے آثار قدیمہ بر آمد کر کے اسے ساری دنیا میں متعارف کرایا۔ وہاں پر بہت بڑا ثقافتی ورثہ جمع کیا جس کی بدولت بلوچستان کو ساری دنیا میں شہرت ملی کیونکہ 1953 میں فرکوسن سکول سے زراعت کے شعبے میں اعلیٰ تکنیکی مہارت حاصل کی تھی اور مٹھڑی میں ماڈرن مہر گڑھ فارم بنایاجو بلوچستان میں ایک جدید زرعی فارم تھا۔ نواب غوث بخش رئیسانی نے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1946 ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔

جبکہ 1949 ء میں بحیثیت میجرکمانڈ لیویز اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ والد بزرگ وار نواب سر اسد اللہ خان رئیسانی کے انتقال کے بعد انہیں رئیسانی قبیلے کا سربراہ بنایا گیا اس کیلئے انہیں نوکری چھوڑنی پڑی اور عملی سیاست میں قدم رکھنا پڑا۔ شہید نواب غوث بخش رئیسانی 1966 ء میں صوبائی اسمبلی مغربی پاکستان کے رکن رہے ضلع قلات سے اس کے علاوہ 1970 میں کچھی ون سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے 1971 میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے نواب غوث بخش رئیسانی 28 دسمبر 1971 تا2 اپریل 1972 بلوچستان کے پہلے سول گورنر رہے،1972 سے لے کر 13 فروری 1974 تک وفاقی وزیر خوراک و زراعت بھی رہے۔

نواب صاحب پیپلز پارٹی کے صدر مقرر ہوئے تو صوبائی کابینہ میں سینئر وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ پاکستان میں 1977 ء و قائد عوام ذو الفقار علی بھو شہید کی حکومت کو جب ضیاء الحق نے ختم کیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو آمروں نے نواب غوث بخش رئیسانی کو بھی نظر بند کیا۔نواب غوث بخش رئیسانی نے جمہوریت کی بالا دستی بلوچستان کے عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے فوجی ڈکٹیٹر شپ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ نواب غوث بخش رئیسانی نے صوبے میں صحافت کی اولین بنیادیں رکھنے کیلئے کوئٹہ شہر میں پریس کلب قائم کیا۔

نواب غوث بخش رئیسانی کو 26 مئی 1987 کو جب وہ کوئٹہ جارہے تھے تو ڈھاڈر سے 3 میل دور درہ بولان کے قریب پانچ محافظوں سمیت 27 رمضان مبارک کے دن شہید کر دیا گیا گزشتہ روز ان کی 36 ویں برسی عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ آج بھی ان کے فرزند چیف آف سروان نواب محمد اسلم خان رئیسانی اور نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی اپنے بزرگوں سراسد اللہ خان رئیسانی اور نواب غوث بخش رئیسانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلوچستان کے عوام کی بلا رنگ ونسل بے لوث خدمت کو اپنا نصب العین سمجھتے ہوئے عوام کے مسائل کے حل کیلئے دن رات کوشاں ہیں