|

وقتِ اشاعت :   May 20 – 2023

حکومت کی جانب آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ بجٹ میں ریلیف اور مزید ٹیکس لگانے کے معاملات زیر غور ہیں۔ بہرحال یہ بجٹ حکومتی اتحاد کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں کیونکہ عوام کو اس بجٹ میں زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم نہ کی گئی تو اس سے عوام میں موجود مہنگائی، بجلی لوڈشیڈنگ، گیس کی عدم فراہمی اور اس کے ساتھ اوور بلنگ کا معاملات سمیت دیگر سہولیات کی عدم فراہمی کا غصہ ابھر کر سامنے آئے گا اور اس کا اثر ووٹ بینک میںکمی کی صورت میں بھی نکلے گا۔

اس لئے حکومت کے لئے اتنا آسان نہیں ہوگا کہ وہ ٹیکسز اور مہنگائی کی شرح بڑھا کر ملبہ پچھلی حکومت پر ڈال دے۔ ملک میں پہلے سے مہنگائی، بیروزگاری سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے عوام سخت نالاں ہیں اس تمام تر صورتحال کو بھانپتے ہوئے حکومت کواقدامات اٹھانے ہونگے۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سالانہ 15 کروڑ یا اس سے زائد آمدنی والی صنعتوں اور افراد پر سْپر ٹیکس جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ذرائع کے مطابق اگلے مالی سال کے دوران 15کروڑ آمدن والوں پر 1 فیصد سْپر ٹیکس عائد رہے گا جبکہ 20 کروڑ آمدن پر 2 فیصد سْپر ٹیکس عائد ہوگا۔ ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق اگلے مالی سال کے دوران 25 کروڑ سالانہ آمدن پر 3 فیصد اور 30 کروڑ آمدن پر 5 فیصد سْپر ٹیکس عائد ہوگا۔ ذرائع کے مطابق اگلے مالی سال کے دوران 30 کروڑ سے زائد آمدن پر 10 فیصد سْپر ٹیکس عائد ہوگا۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ گاڑیوں، مشروبات، کیمیکلز، فرٹیلائزر، اسٹیل اور سیمنٹ سیکٹر پر سْپر ٹیکس عائد ہوگا۔

گاڑیوں، مشروبات، کیمیکل فرٹیلائزر، اسٹیل، سیمنٹ پر سپر ٹیکسز کے بعد عوام پر اس کا بوجھ تو پڑے گا مگر ساتھ ہی صنعتی سیکٹر پر اثرات پڑیں گے صنعتیں پہلے سے ہی بہت زیادہ متاثر ہیں ان پر بوجھ ڈالنے سے بندش کا خطرہ پیدا ہوگا جس سے بڑے پیمانے پر لوگ بیروزگار ہونگے لہذا سوچ بچار کے ساتھ بجٹ بنائی جائے جس سے حکومتی جماعتوں کو آنے والے انتخابات میں نقصان نہ اٹھانا پڑے۔