|

وقتِ اشاعت :   May 25 – 2023

کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی لیویز کے اہلکاروں کی مراعات کو برقرار رکھنے کی قرارداد پرعدم عملدرآمدپرایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کو طلب کرلیا گیاجمعرات کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 2گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا۔

اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن میر زابد علی ریکی عدم موجودگی پر انکے سوالات کونمٹا دیا گیا جبکہ وقفہ سوالات کے دوران متعلقہ وزیر کی عدم موجودگی پر پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ زیرے نے کہا کہ جس بھی وزیر کے سوالات ہوں اس دن متعلقہ وزیر غیر حاضر ہوتے ہیں اس فورم پر وزراء جوابدہ ہیں یہ اچھی مثال نہیں ہے۔

رکن صوبائی اسمبلی میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ وزراء اگر خود موجودنہ ہوں تو وہ کسی دوسرے وزیر سے انکی جگہ جواب دینے کا کہہ سکتے ہیں مگر ایسا نہیں کیا جا تا۔جس پر ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے میر عارف جان محمد حسنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہ آپ بھی حکوت میں ہیں اور یہ عمل جانتے ہیں وزیر پی ایچ ای کی جانب سے آپ جواب دے دیں جس پر میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ ایوان میں مجھ سمیت صرف 4ارکان اپوزیشن میں ہیں باقی سب حکومت کا حصہ ہیں شیڈو وزیراعلیٰ بھی ایوان میں موجود ہیں وہ جواب دے سکتے ہیں۔

بعدازاں سوالات کو وزراء کی عدم موجودگی پر موخر کردیا گیا۔اجلاس میں پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ زیرے نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ کی توجہ وفاقی لیویز فورس کے سروس سٹرکچر کی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ 29ستمبر 2022کی اسمبلی نشست میں باقاعدہ طور پر قرار داد نمبر 148منظورکی گئی تھی لیکن محکمہ داخلہ نے تاحال اس بابت کوئی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں جس کووجہ سے وفاقی لیویزفورس کے اہلکاروں میں سخت اضطراب پایا جاتاہے لہذا محکمہ داخلہ کی جانب سے اس بابت اقدامات نہ اٹھانے کی کیا وجوہات ہیں تفصیل فراہم کی جائے۔ اس موقع پر رکن صوبائی اسمبلی میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ وفاقی لیویز فورس کے اہلکاروں کے ریٹائر یا فوت ہونے کے بعد انکے بچوں کو نوکری ملتی تھی ۔

لیکن اس پر عملدآمد فی الحال رکا ہوا ہے۔صوبائی وزیر تعلیم میر نصیب اللہ مری نے کہا سروس سٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے وفاقی لیویز کے اہلکار نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے انکے بچوں کو مکمل سروس ملنی چاہیے۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے کہا کہ وزیر داخلہ ایوان میں موجود نہیں ہیں لیکن اس حوالے سے محکمہ داخلہ سے جواب طلب کیا جائے گا ڈپٹی اسپیکر نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ بلوچستان کو اسمبلی طلب کرتے ہوئے توجہ دلاؤ نوٹس کو نمٹا دیا۔

اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف ملک سکندر خان ایڈوکیٹ نے کہا کہ اپ گریڈیشن کے منتظر استاتذہ جب بھوک ہڑتال پر تھے تو ہم نے انکی ہڑتال ختم کروائی تھی بعدازاں اپ گریڈیشن کمیٹی نے پوسٹوں کی اپ گریڈیشن کی منظوری دی اور کابینہ سے بھی اس فیصلے کو منظور کرلیا گیا ہے مگر اب معاملہ سیکرٹری خزانہ کے پاس تعطل کا شکار ہے کابینہ کے فیصلے کے تحت استاتذہ کی اپ گریڈیشن کی جائے۔ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے رولنگ دی کہ کابینہ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے استاتذہ کی اپ گریڈیشن کی جائے۔اجلاس میں نقطہ اعتراض پر رکن صوبائی اسمبلی میر ظہور بلیدی نے کہا کہ آج یوم تکریم شہداء منایا جارہا ہے ہر پاکستانی پر فرض ہے۔

 وہ شہداء کی تکریم کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کرے۔انہوں نے کہا کہ گلزار امام شمبے زئی کی گرفتاری حساس اداروں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظہر ہے۔جس طرح انہوں نے اعتراف جرم کیا کہ وہ 15سال سے پہاڑوں میں ایک تنظیم چلا رہے تھے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں بیٹھ کر ملک دشمن قوتیں سازشوں میں مصروف ہیں اور نوجوانوں کو ورغلا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ گلزار امام نے بھی نشاندہی کی ہے کہ صوبے میں بے روزگاری اور فنڈز عوام تک نہیں پہنچتے انہی وجوہات کی بناء پر نوجوان نظام سے متنفر ہیں ۔

صوبے میں 25سے 30ہزار آسامیوں پر بھرتی کا عمل شروع کیا گیا لیکن گزشتہ دونوں بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کرنے والے نوجوان نے کہا کہ اس سے 11گریڈ کی نوکری کے لئے 11لاکھ روپے رشوت طلب کی گئی ہے اسی طرح ہزاروں نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈگریاں ہیں اگر انہیں روزگار نہ ملا تو وہ اسمگلنگ کریں گے یا باغی ہوجا ئیں گے۔انہوں نے کہا کہ اس اہم مسئلے پرحکومت، کابینہ اور اسمبلی کو نوٹس لینا چاہیے عوام نے ہمیں ووٹ دیکر اس لئے بھیجا ہے کہ ہم انکے لئے پالیسی، خوشحالی،روزگار لائیں یہ معمولی بات نہیں ہے اس پر سنجیدہ کاروائی کی جائے۔