|

وقتِ اشاعت :   May 25 – 2023

کوئٹہ: بلوچستان کے اراکین اسمبلی ، ویمن پارلیمنٹرین کاکس، کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن ، سول سوسائٹی کی تنظیموں وکلاء اور مختلف اسٹیک ہولڈرز نے بلوچستان میں سرکاری سطح پر بننے والی پناہ گاہوں کے جامع قوانین کی تشکیل پر اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے۔

خواتین کے لئے سرکاری سطح پر ایسی محفوظ پناہ گاہوں کا قیام ضروری ہے کہ جہاں محفوظ ماحول میں انہیں تمام بنیادی سہولیات میسر ہوں جمعرات کو مقامی ہوٹل میں پناہ گاہ ایکٹ کے مسودہ قانون پر مشاورت کے لئے شرکت گاہ کے زیر اہتمام منعقدہ مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری قانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر خان بلیدی، اراکین صوبائی اسمبلی واجہ ثناء اللہ بلوچ ، میر احمد نواز بلوچ ، شکیلہ نوید قاضی ، شاہینہ کاکڑ، کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن بلوچستان کی چیئرپرسن فوزیہ شاہین ، نیشل کمیشن آن ہیومن رائٹس بلوچستان کی سربراہ فرخندہ اورنگ زیب، ہیومن رائٹس بلوچستان کے وائس چیئرمین ایڈوکیٹ طاہر حبیب ، یو این ویمن سب کیمپس کی ہیڈ عائشہ ودود ، بینظیر شیلٹر کی انچارج روبینہ زہری ، یو این ڈی پی کی نمائندہ صدیقہ سلطان ، ممتاز ماہر قانون و سابق چیئرمین بلوچستان پبلک سروس کمیشن کیلاش ناتھ کوہلی ، ایڈوکیٹ قمر النساء ، سیکرٹری ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سید سکندر شاہ ایڈیشنل سیکرٹری قانون شوکت علی ملک سول سوسائٹی کے نمائندوں ضیا بلوچ ، احمد نواز ، صائمہ ہارون ، اشفاق مینگل ، سہیل وڑائچ ، شرکت گاہ کی ڈائریکٹر ہمیرا شیخ ، کنسلٹنٹ سید محسن عباس ، سیمہ بتول ، انور بلوچ و دیگر نے شرکت کی۔

اجلاس کے آغاز پر شرکت گاہ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فریدہ شہید نے مشاورتی اجلاس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی اور مجوزہ مسودہ قانون کے چیدہ نقاط سے شرکاء کو آگاہ کیا مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خاص پارلیمانی سیکرٹری قانون و پارلیمانی امور سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین کے حقوق اور تحفظ سے متعلق جامع قوانین کی تشکیل پر کام جاری ہے، اور ہماری کوشش ہے تمام قوانین میں صنفی مساوات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اس کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کا موثر میکنزم بھی ضروری ہے اس ضمن میں لوگوں میں شعوری آگاہی دینا ہوگی اور یہ واضح کرنا ہوگا کہ جو قوانین وضع کئے جاررہے ہیں وہ عوام کے لئے ہی ہیں۔

 یہ بھی اشد ضروری ہے کہ جو قوانین جن کے لئے بنائے جاررہے ہیں ان سے مشاورت کو یقینی بنایا جائے خواتین پناہ گاہوں کا قیام ایک حساس معاملہ ہے اس لیے ابتدائی مرحلے پر یہ بات واضح ہے کہ پناہ گاہیں صرف سرکاری سطح پر پی قائم ہوں گی جہاں خواتین کو محفوظ ماحول میں تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رکن بلوچستان اسمبلی واجہ ثناء بلوچ نے کہا کہ خواتین کے تحفظ کے لئے مجوزہ مسودہ قانون ایک اچھی پیش رفت ہے تاہم اس کا نام پناہ گاہ کے بجائے امید گاہ رکھا جائے تو بہتر ہوگا اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ ایکٹ پہلے سے موجود قوانین سے ملتے جلتے تو نہیں۔

اگر ایسا ہے تو ہمیں نئے قوانین کی ضرورت نہیں بلکہ رائج الوقت قوانین میں ترامیم کرکے انہیں بہتر بنایا جا سکتا ہے اس کے ساتھ قوانین کے مؤثر نفاذ کے لیے بھی شق کی شمولیت بھی ضروری ہے شرکت گاہ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فریدہ شہید نے اجلاس کے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے معاشرے میں امتیازی رویوں کے خاتمے کے لئے جاری جدوجہد کو موثر بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ۔